1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں تبدیلیٴ جنس کے کامیاب آپریشنز

عبدالستار، اسلام آباد
23 اکتوبر 2020

پاکستان کے نامور اسپتال پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز، اسلام آباد، میں دو بہنوں کی سرجری کے بعد جنس تبدیل کر دی گئی ہے، جس کے بعد متعلقہ فیملی کی زندگی میں ایک انقلابی تبدیلی آگئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3kLKj
Pakistan Coronavirus PIC Hospital in Lahore
تصویر: DW/T. Shahzad

تبدیلی جنس کی اس خبر نے ملک کے کئی سماجی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے اور اس خبر کو کئی سماجی ویب سائٹس پر شیئر کیا گیا۔ اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ان بہنوں کی ایک سیریز آف سرجری ہوئی ہے، جس کو اسپتال کی انتظامیہ نے بالکل مفت کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر یہ سرجری کسی پرائیوٹ اسپتال میں کی جاتی تو کم ازکم بیس لاکھ روپے کا خرچ آتا۔

آزاد محبت اور خواتین: جرمنی میں جنسی انقلاب کی نصف صدی

’چین ہم جنس پسندوں پر تشدد بند کرے‘

پمز کے پروفیسر ڈاکٹر امجد چوہدری نے یہ آپریشن اپنی بارہ رکنی ٹیم کے ساتھ کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کورونا سے پہلے کھاریاں کے رہائشی عابد حیسن اپنی دوبچیوں سولہ سالہ بشری اور چودہ سال وافیہ کو پمز لے کر آئے، جن میں مردانہ خصوصیات تھیں۔ کرونا کی وجہ ہم ان کا فوری طور پر آپریشن نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے ہم نے ان کے ٹیسٹ کرائے، جس میں یہ بات ثابت ہوئی کہ ان کے جسمانی خدوخال عورتوں والے نہیں ہیں۔ لہذا ستمبر اور اکتوبر میں ان کی سیریز آف سرجری کی گئی، جس کے بعد ان کی جنس تبدیل ہو گئی اور وہ صحت یاب ہوگئیں۔ تبدیلی جنس کے بعد اب بشری کا نام ولید عابد اور وافیہ کا نام مراد عابد رکھا گیا ہے۔‘‘

غیر معمولی صورت حال

ڈاکٹر امجد کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق نوزائیدہ اور بچوں کی سرجری کے شعبے سے تعلق ہے، جہاں ہزاروں کی تعداد میں سالانہ ایسے آپریشنز ہوتے ہیں، جس میں بچوں میں کسی کی آنت، کسی کا کوئی اور عضو نہیں ہوتا تو ان کی ری کنسٹریٹو سرجری کی جاتی ہے، '' لیکن یہ کیس بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔ یہ بچیاں جب سن بلوغت کو پہنچی تو ان کو ماہواری بھی نہیں ہوتی تھی۔ ان کی آوازیں بھی بھاری تھیں۔ ٹیسٹ کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے کروموسوم چھیالیس ایکس وائی تھے، جو مردوں کے ہوتے ہیں۔ خواتین کے کروموسوم کی ترتیب چھیالیس ایکس ایکس ہوتی ہے، جو ان بچیوں کی نہیں تھی، تو ان کی سیریز آف سرجری ہوئیں۔ جس سے پہلے ہمیں کئی سائیکولوجیکل کونسلنگ کے سیشنز کرنے پڑے اور لڑکیوں کو آپریشنز کے حوالے سے سمجھانا پڑا۔ جو اللہ کا شکر ہے کہ کامیاب ہوئی۔ ان کا اب ایک اور آپریشن چھ ماہ کے اندر ہوگا۔‘‘

’میں لڑکی سے لڑکا کیسے بنا‘

کیا تبدیلی جنس کا پاکستان میں قانون ہے؟

ڈاکٹر امجد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی جا کر اپنی جنس تبدیل کرا لے۔ ''بلکہ اس کے لئے میڈیکل کنڈیشن دیکھنی ہوتی ہے۔ اگر میڈیکل کنڈیشن ایسی ہے کہ جنس کی تبدیلی ضروری ہے، تو پھر اس کی اجازت ہے ورنہ ایسا ممکن نہیں۔ مثال کے دور پر کسی میں قدرتی طور پر ہی جنسی رجحان یا علامات مخلتف ہوں، جیسا کی ان بچیوں میں تھیں تو ایسی صورت میں سرجری ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت کا صفر اعشاریہ سات سے صفر اعشاریہ پانچ کا چانس ہوتا ہے اور ایسے کیسز برسوں میں آتے ہیں۔‘‘

خوشی کا سماں

گجرات کی تحصیل کھاریاں میں عابد حیسن کے گھر مبارک باد دینے والوں کا تانتا بنا ہوا ہے اور گھر میں خوشیوں کا سماں ہے۔ باون سالہ عابد پاکستان آرمی میں ڈرائیور تھے اور اب کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ انہوں نے اس سرجری کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب ہمیں احساس ہوا کہ ہماری بچیوں میں مردانہ خصوصیات ہیں، تو ہم انہیں ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے، جس نے ہمیں ڈاکٹر امجد کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب اور انکی ٹیم نے بہت محنت کی اور اب میں بہت خوش ہوں کے پہلے میری نو بیٹیاں تھیں، اب ان میں سے دو لڑکے بن گئے ہیں، جو اب میرا کھیتی باڑی میں بھی ہاتھ بٹائیں گے۔‘‘

نئی دنیا

سولہ سالہ ولید عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے لگتا ہے کہ اس کی دنیا تبدیل ہوگئی ہے۔ ''اسکول میں لڑکیاں ہماری بھاری آواز کا مذاق اڑاتی تھیں اور ہمارے شوق بھی غیر معمولی تھے۔ جیسا کہ موٹر سائیکل چلانا اور کرکٹ کھیلنا۔ اس پر لوگوں کو بڑی حیرت ہوتی تھی۔ اب میں لڑکا بن گیا ہوں، جس کی مجھے بہت خوشی ہے۔ میں پہلے بھی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور اب بھی ڈاکٹر بنوں گا۔‘‘

میں یہ کب سے کہنا چاہتی تھی!

چودہ سالہ مراد عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں تنگ کرنے والی لڑکیاں اب کہتی ہیں کہ آپ ہمارے بھائی ہو حالانکہ ماضی میں وہ اس بات پر ہنستی تھی کہ ہم لڑکوں یا مردوں کے ساتھ کھیلتے۔ بہرحال اب وہ بھی خوش ہیں اور ہم بھی اور پورا محلہ بھی خوش ہے۔ میں اب آرمی میں جا کر ملک کا دفاع کروں گا۔ جب میں لڑکی تھا، اس وقت بھی میں آرمی میں شمولیت اختیار کر کے لڑنا چاہتی تھی اور اب بھی وطن کے لئے لڑنا چاہتا ہوں۔ ‘‘