1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں بریسٹ کینسر کے راستے کی دیوار، پدر شاہی نظام بھی

14 نومبر 2021

پاکستان میں بریسٹ کینسر میں مبتلا خواتین خاندانی مجبوریوں کے تحت کسی مرد ڈاکٹر سے تشخیص نہیں کرواتی ہیں۔ جب اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے تو اکثر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

https://p.dw.com/p/42pP6
Symbolbild Brustkrebs Untersuchung
تصویر: Christin Klose/Themendienst/dpa/picture alliance

براعظم ایشیا میں پاکستان وہ ملک ہے جہاں بریسٹ کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ اس کی شرح میں اضافے کو روکنے کے لیے خاندانی رکاوٹوں کو ہٹانا ہو گا اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ مرض پھیلتا ہی چلا جائے گا۔

افریقہ میں بریسٹ کینسر کا پھیلاؤ: آگہی کم، علاج محدود

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق سن 2020 کے دوران پاکستان میں چھبیس ہزار خواتین میں چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی۔ اس جان لیوا بیماری سے ساڑھے تیرہ ہزار سے زائد خواتین ہلاک ہوئیں۔

Pakistan | Kampagne zur Brustkrebsvorsorge
سن 2020 میں کراچی میں نکالی گئی بریسٹ کینسر کی آگہی کی ایک واک کے پاکستانی شرکاتصویر: PPI/ZUMAPRESS/picture alliance

تشخیص کے مراکز کم ہیں

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بریسٹ کینسر سے زیادہ اموات ہونے کی بڑی وجہ اس مرض کے تشخیصی مراکز اور علاج کی سہولیات کی کمی ہے۔ اس تناظر میں اس مرض میں کمی لانے کے لیے اسکریننگ سینٹرز مختلف شہروں میں قائم کرنا اولین قدم ہو گا۔ اس کے علاوہ اس مرض کی افزائش میں قدامت پسندانہ خاندانی رویے اور دوسرے سماجی فیکٹرز بھی شامل ہیں۔

بریسٹ کینسر کی تشخیص اور معاشرتی جبر

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر کی جتنی جلد تشخیص ہو جائے اتنا بہتر ہوتا ہے اور مریض کا مناسب علاج بھی ممکن ہوتا ہے۔ شوکت خانم کینسر ریسرچ سینٹر کے مطابق پاکستان میں اکثر خواتین شرم کے باعث اپنے صحت کے مسائل کے بارے میں کسی دوسرے سے بات کرنا مناسب پسند نہیں کرتیں۔ اسی باعث وہ بریسٹ کینسر کی کلینیکل تشخیص سے بھی گبھراتی ہیں۔

Pakistan | Kampagne zur Brustkrebsvorsorge
پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں بریسٹ کینسر کی آگہی مہم کے دوران طبی ماہرین معلومات فراہم دے رہے ہیںتصویر: PPI/ZUMAPRESS/picture alliance

اسلام آباد کے پولی کلینک سے وابستہ ارم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مردانہ غلبے (پدر شاہی) والے معاشرے میں عورتوں کو علاج کے لیے اپنا جسم کسی دوسرے کو دکھانا مشکل ہوتا ہے۔برا اور چھاتی کا سرطان، کچھ من گھڑت دعوے

ارم خان کے مطابق بریسٹ کینسر کا علاج کرانے والی کسی بھی خاتون کو خاندان کی جانب سے بسا اوقات طعنے بھی سننے کو ملتے ہیں۔ ایک خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کی سرجری کے بعد اس کے شوہر نے اسے مرد قرار دے دیا تھا۔

خواتین کے حقوق کی سرگرم مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کی عورتوں کو یہ ڈر بھی لاحق رہتا ہے کہ جب ان کے شوہر کو ان کے بیمار ہونے کا پتہ چلتا ہے تو وہ دوسری شادی کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

علاج بھی ایک دھبہ

آن لائن ڈیٹا بیس بی ایم سی ویمنز ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں بیمار خواتین اگر علاج معالجہ شروع کریں تو انہیں خاندان کے افراد کی جانب سے مختلف قسم کے طعنے سننا پڑتے ہیں اور معالج مرد ہو تو پھر بیماری بھی ایک دھبہ بن جاتی ہے۔

الجزائر میں چھاتی کے کینسر کی شکار ’آدھی عورتیں‘

بی ایم سی کی مکمل کردہ ایک ریسرچ کے مطابق خواتین میں اس مرض بارے معلومات کی کمی، سرجری کا خوف، روایتی علاج پر یقین اور روحانی شفا حاصل کرنا بھی بیماری کو شدید کرنے کا باعث ہوتا ہے۔

Symbolbild Brustkrebs Untersuchung
سن 2020 میں دنیا کے مختلف ممالک میں چھ لاکھ پچاسی ہزار خواتین اس بیماری سے بچ نہیں پائیں تصویر: Bo Valentino/Zoonar/picture alliance

اسی ڈیٹا بیس کے مطابق بریسٹ کینسر میں مبتلا نواسی فیصد خواتین معالج کے پاس اس وقت جاتی ہیں جب یہ کینسر پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو چکا ہوتا ہے اور انسٹھ فیصد خواتین میں تشخیص اس وقت ہوتی ہےجب ان میں چھاتی کا سرطان ایڈوانس مرحلے میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں بریسٹ کینسر کی شرح

سن 2020 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطاق دنیا کے مختلف ممالک میں قریب تیئیس لاکھ خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور ان میں سے چھ لاکھ پچاسی ہزار بیماری سے بچ نہیں پائیں اور موت کے منہ میں چلی گئیں۔ براعظم افریقہ کے کئی ممالک کی خواتین میں بریسٹ کینسر بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔

ایس خان (ع ح/ع ا)