1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں اب تک کم عمری کی شادیوں کا رواج کیوں؟

28 نومبر 2022

حال ہی میں پاکستان کے مغربی صوبے بلوچستان میں ایک پانچ سالہ بچی کی شادی نے بچوں کے تحفظ اور خاندانی معاملات میں قدامت پسند مذہبی شخصیات کے کردار پر بحث چھیڑ دی ہے۔

https://p.dw.com/p/4KBzl
یہ کراچی کی ایک تصویر ہے، جہاں ایسی ہی ایک کم عمری کی شادی کے خلاف پولیس نے کارروائی کی تھی
یہ کراچی کی ایک تصویر ہے، جہاں ایسی ہی ایک کم عمری کی شادی کے خلاف پولیس نے کارروائی کی تھیتصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

اکتوبر میں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پولیس نے اطلاع ملنے پر دو افراد کو اس وقت گرفتار کیا، جب انہوں نے ایک پانچ سالہ بچی کی زبردستی شادی کروائی۔ لڑکی کے چچا کا کہنا ہے کہ ایک مقامی فرد نے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے بچی کے رشتے پر اصرار کیا اور لڑکی کے والد پر شادی کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا، ''ہم نے بارہا ان کو سمجھایا تھا کہ لڑکی شادی کرنے کے لیے ابھی کم عمر ہے‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس 'وٹہ سٹہ کی شادی‘ کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی اور پھر پولیس کو مطلع کیا گیا۔

مقامی پولیس چیف نے بتایا کہ پولیس نے شادی کے انتظامات کرنے والے ذمہ داروں کو گرفتار کر لیا ہے اور مقدمہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اس نکاح خواں کی گرفتاری کے لیے کوشش کر رہے ہیں، جس نے یہ نکاح پڑھایا۔

تاہم پاکستان میں یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق پاکستان میں تقریبا 19 ملین کم عمر دلہنیں موجود ہیں۔ اس ادارے کے ایک اندازے کے مطابق تقریبا 4.6 ملین بچیوں کی شادی 15 سال کی عمر سے پہلے کر دی گئی جبکہ 18.9 ملین بچیوں کی شادیاں 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کر دی گئیں۔

پاکستان کے قبائلی علاقے، کم عمری کی شادی کا رجحان

لاہور میں مقیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے تعلق رکھنے والی طاہرہ حبیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 2022ء میں کم عمری کی شادی کے 99 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے کیوں کہ ایسے خاندانوں کو بدنامی کا خوف ہوتا ہے۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیاں اب بھی جاری

طاہرہ حبیب کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کے سب سے زیادہ واقعات پیش آتے ہیں۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی سابق قانون ساز یاسمین لہری نے بتایا کہ صوبے کے قبائلی اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی شادیاں تقریبا 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہیں، ''شہری علاقوں میں آگاہی ہونے کے سبب لڑکیوں کی شادی 18 سال یا اس سے زائد عمر میں کی جاتی ہے لیکن صوبے کے باقی حصوں میں صورتحال کافی سنگین ہے‘‘۔

ان کا کہنا ہے کہ غربت اور معاشی عوامل اس معاملے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اکثر کم عمر لڑکیوں کی وٹہ سٹہ کی شادی خاندانوں کے درمیان اس لیے طے پاتی ہے کہ ان نوجوان بچیوں سے گھر کا کام کاج یا مزدوری کرائی جا سکے۔

شادی کی کم از کم عمر کی حد مقرر کرنے پر مذہبی جماعتوں کی مخالفت

پورے پاکستان میں سول سوسائٹی کم عمری کی شادیوں کے خاتمے اور سخت قانون سازی کے لیے سرگرم ہے۔ اس حوالے سے وہ اس رویے کی تبدیلی کے لیے مذہبی جماعتوں، حکومت اور مختلف برادریوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ پاکستانی قانون ساز کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ شادی کی کم از کم حد مقررکرنے کی قانون سازی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی طبقہ ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب اس حوالے سے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو مذہبی سوچ رکھنے والے ممبران نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا شیرانی شادی کی کم از کم حد مقرر کیے جانے والی قانون سازی کی پرزور مخالفت کرتے ہیں۔کونسل نے حکومت کو مشورہ دیا ہےکہ قانون سازی اسلام کے مطابق کی جائے۔

کونسل نے 2014ء میں کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے قانون کو 'غیر اسلامی‘ قرار دیا، جس کی وجہ سے میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔

سابق قانون دان یاسمین لہری نے بتایا کہ جب شادی کی کم ازکم حد مقرر کرنے کا بل بلوچستان اسمبلی میں پیش کیا گیا تو مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس کی شدید مخالفت کی گئی۔

سابق قانون ساز سمیعہ راحیل قاضی کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر کی حد 18 سال ہونی چاہیے۔ مغربی اقدار کی وکالت کرنے اور مذہب کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اس مسئلہ کے جڑ سے خاتمے کے لیے ایک بڑی اور موثر آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔

ایس خان، اسلام آباد (م غ/ ا ا)