1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: علماء خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں

عنبرین فاطمہ20 جون 2014

تنظیم المدارس اہل سنت کے صدر، مفتی منیب الرحمان اور فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے معروف عالم دین اور ذاکر علامہ زہیر عابدی کے مطابق اگر کوئی شخص کسی مسئلے کی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی کرتا ہے، تو دین مس کی اجازت دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CMep
تصویر: DW/A. G. Kakar

پاکستان میں بہبود آبادی کے لیے کام کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے پاپولیشن کونسل اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اگر پاکستان کی آبادی موجود شرح سے بڑھتی رہی تو 2050ء تک اس ملک کی آبادی 342 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے بہبود آبادی کے ادارے’یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ‘ کے تعاون سے حال ہی میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں پاپولیشن کونسل پاکستان کی چیئرپرسن ڈاکٹر زیبا ستار کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ 2050ء تک پاکستان کی آبادی میں ہونے والے تیز رفتار اضافے میں کمی لاتے ہوئے اسے 246 ملین تک محدود کیا جا سکے۔

ڈاکٹر زیبا ستار کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے ملک کے مذہبی رہنماء انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے’’FALAH ‘‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس میں لوگوں کو اولاد میں وقفے پر تیار کرنے کے لیے مقامی مذہبی رہنماؤں کی مدد حاصل کی گئی تھی۔ اس پروگرام کے بہت مثبت نتائج سامنے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی سلسلے کو ملک بھر میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔

Muhammad Ayub mit seinen Schülern
تصویر: DW/M.Ayub-Sumbal

پاپولیشن کونسل کی جانب سے چلائے جانے والے پروگرام ’’فلاح‘‘ کے لیے مذہبی شخصیات کا سہارا کیوں لیا گیا؟ اس حوالے سے پاپولیشن کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی میر نے ڈوئچے ویلے سےگفتگو کرتے ہوئے بتایا ’’ اس پراجیکٹ میں ہم نے فیملی پلاننگ کے بنیادی خیال کو بدلا اور اولاد میں وقفے کی بات کی۔ اور یہ بات اسلامی حوالے سے بھی دین کے عین مطابق ہےکیونکہ قرآن میں ہے کہ مائیں بچوں کو دو سال تک اپنا دودھ پلائیں۔ جب مائیں دو سال تک دودھ پلاتی ہیں تو آٹو میٹک ایک وقفہ آجاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر علی میر کے مطابق اس منصوبے کی خاص بات مقامی مذہبی رہنماؤں کی شمولیت تھی: ’’علماء کو بھی ہم نے اس پراجیکٹ میں شامل کیا۔ ہم نے مختلف اضلاع کے قریب 1600علماء کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتایا۔ کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ اگر مردوں تک ہم نے اپنا پیغام پہنچانا ہے تو پھر علاقے کی مساجد کے ذریعے ان تک یہ بات بہت مؤثر انداز سے پہنچائی جا سکتی ہے۔ اور جب یہ لوگ فیلمی پلاننگ کے حوالے سے اپنے سوالات علماء تک لاتے ہیں تو انہیں درست طور پر جوابات مل سکتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر علی میر کے مطابق یہ منصوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے 20 مختلف اضلاع میں شروع کیا گیا اور اس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2007ء سے 2012ء تک جاری رہنے والے اس پروگرام کے نتیجے میں مذکورہ 20 اضلاع میں مانع حمل ادویات یا کنٹرسیپٹیوز کے استعمال میں 8.5 فیصد کا اضافہ ہوا۔

فلاح سے منسلک مذہبی شخصیات ہی نہیں بلکہ دیگر جید علماء کا بھی یہی کہنا کہ کہ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ ابہام پایا جاتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی غیر اسلامی یا غیر شرعی عمل ہے۔

پاکستان کے مفتی اعظم، دارالعلوم نعیمیہ اور تنظیم المدارس اہل سنت کے صدر، مفتی منیب الرحمان کہتے ہیں، ’’خاندانی منصوبہ بندی کو اگر حکومت اپنی پالیسی میں شامل کرے تو یہ درست نہیں ہے لیکن اگر کوئی فرد اپنے معاشی حالات یا کسی بیماری کی وجہ سےامتنائے حمل یعنی حمل ٹہرنے سے روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرے تو یہ منع نہیں ہے۔ ہاں اگر حمل ٹہر جائے تو اس کو ساقط کرنا منع ہے۔‘‘

اسی خیال کی توثیق فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے معروف عالم دین اور ذاکر علامہ زہیر عابدی نے بھی کی، ’’مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ ، نکاح کرو اور زیادہ سے زیادہ اولاد پیدا کرو، لیکن یہ ایک اجتماعی حکم ہے اور انفرادی طور پرکوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے حالات ایسے ہیں کہ وہ زیادہ بچے نہیں پال سکتا تو وہ احتیاط کر سکتا ہے۔ اس کی اجازت اسلام نے دی ہے۔‘‘

پاپولیشن کونسل کے مطابق پاکستان میں ہر برس ہونے والی 90 لاکھ پریگنینسیز یا حمل میں سے قریب 40 لاکھ والدین کی خواہش کے بغیر ہوتی ہیں۔ اگر مذہبی رہنماؤں کی شمولیت سے فلاح جیسے پروگرام کو ملک بھر میں چلایا جاتا ہے تو بناء خواہش کے ہونے والی پریگنینسیز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔