1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب اسمبلی کے نو منتخب ارکان نے حلف اٹھا لیا

وقت اشاعت 22 فروری 2024آخری اپ ڈیٹ 23 فروری 2024

پنجاب کے نو منتخب ارکان صوبائی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا۔ اجلاس کی صدارت سپیکر سبطین خان نے کی۔ نئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کل ہفتے کے روز کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/4cjS9
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
آپ کو یہ جاننا چاہیے سیکشن پر جائیں

آپ کو یہ جاننا چاہیے

  • پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے نو منتخب ارکان نے حلف اٹھا لیا
  • پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنانے پر متفق ہو گئیں
  • معاہدے کے مطابق شہباز شریف وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر کے عہدے کے لیے امیدوار ہوں گے
  • پاکستان تحریک انصاف نے خصوصی نشستوں کے حصول کے لیے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کر لیا ہے
پنجاب اسمبلی کے نو منتخب ارکان نے حلف اٹھا لیا سیکشن پر جائیں
23 فروری 2024

پنجاب اسمبلی کے نو منتخب ارکان نے حلف اٹھا لیا

پنجاب کے نو منتخب ارکان صوبائی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا۔ اجلاس کی صدارت سپیکر سبطین خان نے کی۔ نئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کل ہفتے کے روز کیا جائے گا۔

قبل ازیں پنجاب اسمبلی کا پہلا اجلاس آج صبح دس بجے طلب کیا گیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اجلاس سے قبل ہی پولیس کی بڑی تعداد اسمبلی کی عمارت کے گرد تعینات تھی۔

ارکان کی آمد کے بعد سپیکر سبطین خان کی صدارت میں اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے کی تاخیر کے بعد شروع ہوا جسے کچھ ہی دیر بعد 45 منٹ کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

حالیہ انتخابات کے نتیجے میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کو ایک جماعت کے طور پر سب سے زیادہ 137 نشستیں حاصل ہوئیں جب کہ آزاد ارکان کی تعداد 138 تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کے بعد اس جماعت میں شریک ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ 20 سے زائد آزاد امیدواروں نے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور یوں انہیں ایوان میں سادہ اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔

اجلاس شروع ہوتے ہی دونوں جماعتوں کے ارکان کے مابین تلخ کلامی اور نعرہ بازی شروع ہو گئی۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے لیے مریم نواز کو نامزد کیا گیا ہے جب کہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے میاں اسلم اقبال اس عہدے کے امیدوار ہیں۔

میاں اسلم اقبال اسمبلی میں موجود نہیں تھے، جس پر سپیکر نے کہا کہ اگر وہ گرفتار ہیں تو وہ ان کا پروڈکشن آرڈر جاری کریں گے۔

https://p.dw.com/p/4cnkY
پاکستان آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالر قرض کا خواہاں سیکشن پر جائیں
23 فروری 2024

پاکستان آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالر قرض کا خواہاں

بلوم برگ نیوز نے ایک پاکستانی عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان قرض دہندہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ توسیعی فنڈ کی سہولت پر بات چیت کرے گا تاکہ وہ کم از کم چھ ملین ڈالر بطور قرض حاصل کرسکے۔ یہ بات چیت مارچ یا اپریل میں شروع ہونے کی توقع ہے۔

پاکستان گزشتہ موسم گرما میں آئی ایم ایف سے مختصر مدت کے بیل آؤٹ پیکج کے بدولت ڈیفالٹ سے نکل گیا تھا، تاہم یہ پروگرام اگلے ماہ ختم ہو جائے گا اور نئی حکومت کو 350 ارب ڈالر کی معیشت کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے طویل مدتی انتظامات پر بات چیت کرنا ہو گی۔

بیل آؤٹ سے قبل پاکستان کو آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھانے پڑے تھے، جن میں بجٹ پر نظر ثانی، سود کی شرحوں میں اضافہ اور بجلی اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ شامل تھے۔

آئی ایم ایف کے ایک ترجمان نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے حکام پاکستانی عہدیداروں کے ساتھ طویل مدتی اصلاحات کے حوالے سے بات چیت کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر نئی حکومت پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حل کے سلسلے میں نئے طریقہ کار پیش کرکے قرض کے لیے درخواست کرتی ہے تواس کے لیے فنڈ دستیاب ہے۔

پاکستان کے نگراں وزیر خزانہ نے بلوم برگ کی رپورٹ پر خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی جانب سے تبصرہ کے لیے درخواست کا فوری طورپر جواب نہیں دیا۔

مکمل رپورٹ: پاکستان آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالر قرض کا خواہاں

 

 

https://p.dw.com/p/4cnkX
سابق وزیراعظم عمران خان کا آئی ایم ایف سے الیکشن آڈٹ کرانے کا مطالبہ سیکشن پر جائیں
22 فروری 2024

سابق وزیراعظم عمران خان کا آئی ایم ایف سے الیکشن آڈٹ کرانے کا مطالبہ

سابق وزیراعظم عمران خان آئی ایم ایف کو خط لکھ کر آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کا آزادانہ آڈٹ کرانے کا مطالبہ کریں گے۔ 
پاکستان گزشتہ برس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قلیل مدتی بیل آؤٹ پیکج کی بدولت ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا تھا، لیکن یہ پروگرام اگلے ماہ ختم ہو رہا ہے۔
نئی حکومت کو 350 ارب ڈالر مالیت کی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے طویل مدتی معاہدے پر بات چیت کرنا ہو گی۔
عمران خان اور ان کی پارٹی کا الزام ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی۔ نتائج کے مطابق انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی۔ 
عمران خان کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں، لیکن ان کی حریف جماعتوں کے اتحاد کے پاس زیادہ نشستیں ہیں اور وہ اگلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔

عمران خان کے وکیل علی ظفر نے جیل کے باہر صحافیوں کو بتایا، ’’عمران خان کے خط میں ہم واضح طور پر کہیں گے کہ اگر آئی ایم ایف پاکستان سے بات کرنا چاہتا ہے تو انہیں (انتخابات کے) آزادانہ آڈٹ کی شرائط رکھنی چاہییں۔‘‘

پاکستان کا الیکشن کمیشن بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تردید کرتا ہے اور بے ضابطگیوں کا الزام لگانے والے مختلف درخواست دہندگان کی شکایات کی سماعت کر رہا ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ آئی ایم ایف اور یورپی یونین جیسے بین الاقوامی بلاک صرف اس شرط پر مالی امداد دے سکتے ہیں کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سمیت اچھی حکمرانی اور جمہوریت ہو۔

آئی ایم ایف نے گزشتہ سال سیاسی جماعتوں سے ملاقات کی تھی تاکہ بیل آؤٹ پروگرام کے تحت اہم مقاصد اور پالیسیوں کی حمایت کی یقین دہانی کرائی جا سکے۔
 

https://p.dw.com/p/4clCw
عمران خان کو رہا کر کے ملک کی قیادت کا حق دیا جائے، بیرسٹر گوہرخان سیکشن پر جائیں
22 فروری 2024

عمران خان کو رہا کر کے ملک کی قیادت کا حق دیا جائے، بیرسٹر گوہرخان

عمران خان کے قید میں 200 دن مکمل ہونے پر تحریک انصاف کے عبوری چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ایکس پر اپنے پیغام میں مطالبہ کیا ہے کہ جماعت کے بانی چیئرمین کو رہا کر کے انہیں ’ملک و ملت کی قیادت کا حق دیا جائے اور عوام کے ووٹ کو اس کی حرمت لوٹائی‘ جائے۔

بیرسٹر گوہر خان نے الزام عائد کیا کہ ’مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ‘ ڈالا جا رہا ہے جسے قبول نہیں کیا جائے گا۔

عمران خان کے خلاف مقدمات اور جماعت سے روا رکھے گئے سلوک کا ذکر کرنے کے بعد انہوں نے لکھا، ’’ریاستیں مقبول عوامی قائدین کو انتقام کی سولی پر چڑھا کر نہیں، ان کے حد درجہ احترام سے اہلِ عالم کی نگاہوں میں مقام پاتی ہیں۔ عمران خان سے روا رکھا جانے والا ظلم ریاست کے دامن پر ایک سیاہ داغ ہے جسے آج دور نہ کیا گیا تو کبھی نہ مٹایا جا سکے گا!‘‘

دریں اثنا اڈیالہ جیل کے باہر مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود انہیں عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

https://p.dw.com/p/4ckDj
امریکہ کا پاکستان سے انٹرنیٹ کی بندش اور سوشل میڈیا پر پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ سیکشن پر جائیں
22 فروری 2024

امریکہ کا پاکستان سے انٹرنیٹ کی بندش اور سوشل میڈیا پر پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ

USA Washington | Matthew Miller
تصویر: Nathan Howard/AP Photo/picture alliance

امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش، جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیاں بھی شامل ہیں، کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی پابندیاں ختم کرے۔

انٹرنیٹ مانیٹرنگ کرنے والے اداروں نے پاکستان میں انتخابی بے ضابطگیوں کے دعووں اور احتجاج کے بعد انٹرنیٹ کی بندش اور پابندیوں کی نشاندہی کی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بدھ کے روز صحافیوں کو بتایا، ’’ہمیں پاکستان میں اظہار رائے اور وابستگی کی آزادی پر پابندیوں کی ہر رپورٹ پر تشویش ہے۔ ان میں حکومت کی جانب سے عائد کردہ جزوی یا مکمل انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیاں بھی شامل ہیں۔‘‘

میتھیو ملر نے کہا کہ واشنگٹن نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرے اور ٹوئٹر (ایکس) سمیت سبھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی بحال کرے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے خدشات سے پاکستان کو سرکاری سطح پر آگاہ کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4cjSb
وفاق میں حکومت سازی کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین معاہدہ سیکشن پر جائیں
22 فروری 2024

وفاق میں حکومت سازی کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین معاہدہ

Kombobild | Pakistanische Politiker von links nach rechts: Maryam Nawaz, Shehbaz Sharif, Imran Khan, Nawaz Sharif, Bilawal Bhutto Zardari und Asif Ali Zardari

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منگل کو رات گئے وفاقی دارالحکومت میں زرداری ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سازی کے لیے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں ’’ہمارے پاس اراکین کی ضروری تعداد موجود ہے اور ہم وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے جبکہ صدر کے لیے دونوں جماعتوں کی جانب سے مشترکہ امیدوار آصف علی زرداری ہوں گے۔

پریس کانفرنس میں پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف سمیت متعدد اہم رہنما موجود تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اب دونوں جماعتیں مل کر پاکستان کو بحران سے نکالنے جا رہی ہیں، ’’ہم مل کر مسائل کا مقابلہ کریں گے اور ہماری پوری کوشش ہو گی کہ عوام کی ہم سے جو امیدیں ہیں، ہم ان کے مطابق کارکردگی دکھا سکیں۔‘‘

مکمل رپورٹ: ن لیگ اور پی پی پی میں اتحاد، شہباز وزیراعظم اور زرداری صدر

https://p.dw.com/p/4cjSa