پاکستان اور ترکی کے صدور کا افغانستان پر تبادلہء خیال
13 اپریل 2011دونوں صدور کے درمیان ترکی میں افغانستان کے طالبان عسکریت پسندوں کا ایک سیاسی دفتر قائم کرنے کے امکان پر بھی بات چیت ہو گی تاکہ افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔
صدر عبداللہ گل اور اُن کے پاکستانی ہم منصب آصف علی زرداری اپنے مذاکرات کے بعد بدھ کو ہی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والے ہیں۔
خبر رساں ادارے AP (ایسوسی ایٹڈ پریس) کے مطابق افغان تنازعے کے کسی بھی حل کے لیے پاکستان کی حمایت اشد ضروری ہے، خاص طور پر پاکستان کی سکیورٹی فورسز میں موجود اُن عناصر کی، جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اُن کے افغانستان میں طالبان مزاحمت کاروں کے ساتھ روابط ہیں۔
افغان صدر حامد کرزئی نے گزشتہ سال دسمبر میں ترکی کے ایک دورے کے موقع پر استنبول میں ایسی تجاویز کا ذکر کیا تھا، جن کے تحت طالبان افغانستان میں مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ترکی یا کسی اور غیر جانبدار ملک میں اپنا نمائندہ دفتر قائم کر سکتے ہیں۔ کرزئی نے ہتھیار ڈال دینے اور افغان آئین کو تسلیم کرنے والے طالبان کو واپس عوامی دھارے میں لانے کے لیے گزشتہ برس ہائی کونسل فار پیس (HCP) قائم کی تھی۔
AP کے مطابق سخت موقف رکھنے والے طالبان نے، جن کے قائدین کا ہیڈ کوارٹر جنوب مغربی پاکستان میں ہے، امن کے قیام کے سلسلے میں افغان حکومت کی کوششوں کو کھلے عام مضحکہ خیز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک غیر ملکی دستے افغان سرزمین چھوڑ کر چلے نہیں جاتے، کسی قسم کے مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ آج کل ترکی کے ایک دستے سمیت تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار غیر ملکی فوجی افغانستان میں سرگرمِ عمل ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اِن میں سے کچھ فوجی اِس سال جولائی سے اپنے اپنے وطن واپس جانا شروع ہو جائیں گے، یہاں تک کہ سن 2014ء تک امن و امان کی ذمہ داریاں زیادہ سے زیادہ افغان فوج اور پولیس کو منتقل ہو جائیں گی۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ