1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان تعلقات ،کابل اور اسلام آباد میں رابطے

امتیاز گل ، اسلام آباد1 اپریل 2009

پاک افغان تعلقات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پانچ درجن سے زائد افغان پارلیمانی اراکین نے اسلام آباد میں منگل اور بدھ کے روز بیک وقت دو کانفرنسوں میں حصہ لیا۔

https://p.dw.com/p/HOR8
پاکستانی، افغان اور ترک صدور ترکی میں ملاقات کے موقع پرتصویر: AP

ان کانفرنسوں کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان پارلیمانی نمائندوں کی سطح پر بدگمانیوں اور عدم اعتماد اور وقتا فوقتا تناؤ کا سبب بننے والے امور پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

خاص طور پر 2001 کے بعد چند ماہ پہلے تک اس نوعیت کی مختلف کانفرنسیں مندوبین کے لئے ویزوں کی عدم فراہمی ایسے امور کے باعث یا تو منعقد نہ ہو سکیں یا پھر ان میں شرکت انتہائی کم رہی لیکن ساؤتھ ایشیاء فری میڈیا ایسوسی ایشن اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹوو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹریننگ کے زیر اہتمام دو کانفرنسیں اس لحاظ سے بھی خاصی بروقت تھیں کہ بدھ کے روز ترکی میں پاکستانی صدر آصف زرداری اور افغان صدرحامد کرزئی کے مابین تفصیلی ملاقات ہوئی جو دو طرفہ تعلقات میں بڑی پیش رفت کے مترادف ہے کیونکہ اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف اور صدر کرزئی کے تعلقات سرد مہری اور تناؤ کا شکار رہے یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کا دورہ کرنے والے افغان ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ تازہ ترین کانفرنسوں کے ذریعے حالات شاید بہتر ہو جائیں۔

Musharraf in Afghanistan
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں دونوں ملکوں کے تعلقات کافی حد تک سرد مہری کا شکار رہے ہیںتصویر: AP

اس حوالے سے افغان رکن پارلیمنٹ گل بادشاہ مجیدی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’ہم پاکستانی پارلیمنٹ سے بھی یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت پر دباؤ ڈالے اور جرگوں کے جو فیصلے ہیں ان پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔‘‘

سابق وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے کہا کہ خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان اور افغانستان کے عوام کی امنگوں کو بھی مقدم رکھا جانا ناگزیر ہے۔

’’انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے مسئلہ پر دونوں حکومتوں کا اپنا الگ موقف ہو گا لیکن عوام کا موقف شاید ان سے مختلف ہے اور جس پالیسی کی تائید عوام کریں گے وہ پالیسی کامیاب ہو گی۔‘‘

بحیثیت مجموعی پاکستان اور افغانستان میں برسر اقتدار اس وقت شخصیات کے مابین امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات اور دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف ہم خیالی کے باعث پہلے سے کہیں زیادہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ عوامی نمائندوں کے اشتراک عمل سے پاک افغان تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔