1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت زچہ و بچہ کی اموات میں سر فہرست

14 مئی 2023

عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن دو ہزار پندرہ کے بعد سے متعدد ممالک زچہ و بچہ میں اموات کی شرح پر قابو پانے کے اہداف سے دور ہیں۔ کووڈ انیس کی عالمی وبا، غربت نے دباؤ کے شکار صحت عامہ کے نظام پر دباؤ بڑھایا ہے۔

https://p.dw.com/p/4R6NU
Father of hundreds gets sperm donation ban from Dutch court
تصویر: Andrew Matthews/dpa/picture alliance

عالمی ادار ہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے  مطابق حمل اور پیدائش کے دوران خواتین اور نوزائیدہ بچوں میں اموات پر قابو پانے کے سلسلے میں پیشرفت گزشہ آٹھ سالوں سے جمود کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق موجودہ شرح کے حساب سے ساٹھ  سے زیادہ ممالک 2030 تک ان اموات پر قابو پانے کے  اہداف سے محروم ہونے کے راستے پر  گامزن ہیں۔

Pakistan Überschwemmungen Frauen und Kinder
 کووڈ انیس کی عالمی وبا، غربت اور بگڑتے ہوئے انسانی بحرانوں نے صحت کی دیکھ بھال کے نظام  پر دباؤ مزید بڑھایا ہےتصویر: Daniel Berehulak/Getty Images

 کووڈ انیس کی عالمی وبا، غربت اور بگڑتے ہوئے انسانی بحرانوں نے پہلے سے ہی دباؤ کے شکار صحت کی دیکھ بھال کے نظام  پر دباؤ بڑھایا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2015 کے بعد سے زچگی کے دوران سالانہ تقریباً 290,000 اموات، 1.9 ملین مردہ بچوں کی پیدائش اور پیدائش کے بعد ایک ماہ کے اندر 2.3 ملین نوزائیدہ بچوں کی اموات ہوئیں۔

بھارت، تاخیر کے باوجود اسقاط حمل کی اجازت دیے جانے کا خیر مقدم

 ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ مجموعی طور پر یہ اعداد و شمار ہر سات سیکنڈ میں ایک موت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ اموات  ''زیادہ تر  قابل علاج وجوہات‘‘ کے باوجود ہوئیں۔ ڈبلیو ایچ او کے زچہ و بچہ اور نوعمروں کی صحت اور عمر رسیدگی کے ڈائریکٹر انشو بنرجی نے کہا کہ موجودہ سے مختلف نتائج دیکھنے کے لیے ممالک کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال میں سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔

سن 2014 میں 190 سے زیادہ ممالک نے  بچوں میں پیدائش سے قبل  اور فوری بعد اموات کی شرح پر قابو پانے کے  ایک منصوبے کی حمایت کی تھی ۔ ڈبلیو ایچ کی رپورٹ کے مطابق موجودہ اندازے شرح اموات کو روکنے کے ان اہداف کو پورا کرنے کے لیے پیش رفت میں  تیزی لانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان اہداف پر عمل کر کے سن 2030 تک کم از کم 7.8 ملین جانیں بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔

افغانستان کی ’بے بی فیکٹری‘

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سن 2000 اور 2010 کے درمیان اس حوالے سے پیشرفت میں کافی تیزی رہی تھی تاہم بعدازاں دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر  فنڈنگ ​​کی کمی کی وجہ سے صورتحال خراب ہوتی گئی۔ جن ممالک کے حوالے سے یہ رپورٹ مرتب کی گئی ان میں ایک سو چھ ممالک میں سے صرف 12 فیصد کے پاس زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کے منصوبوں کی مکمل مالی اعانت دستیاب تھی۔

افغانستان میں زچہ و بچہ کی صحت کو لاحق خطرات

رپورٹ میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ان ممالک میں سے صرف 61 فیصد کے پاس مردہ بچوں کی پیدائش پر نظر رکھنے کا نظام موجود ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ زچہ و بچہ کی اموات کے ساٹھ فیصد واقعات دس  ممالک میں پیش آئے۔ سن 2020 میں ان ممالک کی فہرست میں بھارت، نائیجیریا اور پاکستان  سرفہرست تھے۔

ش ر ⁄ ا ا (روئٹرز)

کییف کے بم شیلٹرز میں بچوں کی پیدائش