پاکستان میں ججوں کی مراعات ظاہر کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم
7 جون 2021دو جون کو دیے گئے اس فیصلے میں کمشنر زاہد عبداللہ نے لکھا کہ ایسا کرنے سے عدالت کی آزادانہ حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ سن 2017 کے تحت یہ تفصیلات عوام تک پہنچائی جانا چاہیے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے حوالے سے جو خط اس سلسلے میں آیا ہے اس کی نوعیت انتظامی ہے اور یہ کہ وہ کوئی عدالتی فیصلہ نہیں ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کا مسئلہ اور یورپی پارلیمان کی قرارداد
خیر مقدم
پاکستان کی سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اس فیصلے کو انتہائی جرات مندانہ قرار دیا۔ اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس سے اداروں میں شفافیت بڑھے گی اور بلا خوف وپسند نا پسند احتساب کا راستہ تمام اداروں میں ہموار ہوگا۔ ملک کی وکلا برادری نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ فوجی جرنیل اور افسران بھی اپنے اثاثوں اور جائیدادوں کا حساب دیں۔
ویمن ایکشن فورم کی درخواست
یہ فیصلہ ویمن ایکشن فورم کی ایک درخواست پر دیا گیا تھا جو انہوں نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں گزشتہ برس جمع کرائی تھی۔ فورم کی رکن مہناز رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " ہم نے گزشتہ برس کمیشن میں ایک درخواست دی کہ ہم نے وزارت قانون سے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی مراعات اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے فوائد بشمول حکومتی اسکیم میں ملنے والے پلاٹوں کی تفصیلات متعلقہ ادارے سے مانگی تھی لیکن مقررہ وقت گزرنے کے باوجود بھی ان کو کوئی جواب نہیں ملا۔ اب کمیشن نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ سات دن کے اندر یہ تفصیلات دی جائیں، جس کا ہم پر زور خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘
کووڈ انيس: کیا ٹیکہ لگوانے والوں کو مراعات ملنی چاہییں؟
فوجی افسران کی بھی تفصیلات بتائی جائیں
مہناز رحمان کے مطابق فورم کی طرف سے ایک درخواست وزارت دفاع کو بھی دی گئی ہے جس کے مطابق اسی طرح کی تفصیلات سینیئر فوجی افسران کے حوالے سے بھی عام کی جائیں لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس جواب نہیں ملا ہے اور وزارت دفاع کی طرف سے دیے گئے جواب سے فورم مطمئن نہیں ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی ایڈوکیٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان میں عدلیہ کہ ادارے کو بہت مقدس سمجھا جاتا ہے اور اگر اعلی عدلیہ کے ججوں کے اثاثوں کو ظاہر کیا جا سکتا ہے تو فوجی افسران کے اثاثوں کو ظاہر کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ لطیف آفریدی کے مطابق اگر فوجی افسران اپنے اثاثے ظاہر کریں گے اور اس میں کوئی بے ضابطگی پائی نہیں جائے گی تو اس سے فوج کے وقار میں اضافہ ہو گا اور عوام کی نظر میں فوج کی عزت بڑھے گی۔
درخواست دینے والوں کے ارادے نیک نہیں
معروف دفاعی معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کا خیال ہے کہ جن لوگوں نے اس طرح کی اطلاعات حاصل کرنے کے لئے درخواست دی تھی ان کے ارادے ٹھیک نہیں تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اب یہ شور مچایا جائے گا کہ فوجی افسران بھی اپنے اثاثے اور جائیدادوں کا حساب کتاب دیں اور اس کی تفصیلات بتائیں۔ اس کے بعد فوج کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع ہوجائے گی اور اس کو بدنام کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف بی آر کے پاس جائیداد، دولت اور دوسری تمام چیزوں کے حوالے سے تمام ریکارڈ ہوتا ہے اور اگر کسی کو کچھ معلوم کرنا ہے تو متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں۔