1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پالی وُڈ: پشتو سینما آخری سانسیں لیتا ہوا

2 جون 2013

افغانستان کے طالبان نے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے دوران موسیقی اور سینما پر پابندی لگا دی تھی۔ پاکستانی طالبان بھی ان سے مختلف نہیں ہیں اور اب تک کئی سینماؤں پر بم حملے کر چکے ہیں۔ پشتو فلموں کی دنیا آخری دموں پر ہے۔

https://p.dw.com/p/18iW3

تین سینما گھروں پر بم حملے کیے گئے یا اُنہیں نذرِ آتش کرتے ہوئے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا۔ کچھ دیگر سینما گھروں کے باہر بم دھماکے کیے گئے۔ پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں اب محض چند ایک سینما گھر ہی ایسے ہیں، جو اب تک بم حملوں سے محفوظ رہے ہیں۔ ان سینماؤں میں بھی ہمسایہ ملک بھارت کی فلمی صنعت بالی وُڈ کی تیار کردہ فلمیں زیادہ کامیابی سے چلتی ہیں جبکہ پشتو زبان میں بنائی گئی فلموں کی مانگ بہت حد تک کم ہو چکی ہے۔

پشاور کے ایک شہری نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے بتایا:’’ایسے خاندان بھی ہیں (خیبر پختونخوا میں)، جو فلموں میں گلوکارہ بن جانے والی اپنی کسی بیٹی کو جان سے مار ڈالتے ہیں۔ لوگ گیتوں سے تو محبت کرتے ہیں، گانے والوں (والیوں) سے نہیں۔‘‘

پشتو فلموں کے سدا بہار ہیرو بدر منیر
پشتو فلموں کے سدا بہار ہیرو بدر منیرتصویر: Pushto Film

پشتو فلمیں زیادہ تر صوبہء پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بنتی ہیں اور ان کی تیاری میں معیار کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا۔ ہر فلم کی ایک ہی طرح کی کہانی ہوتی ہے، جس میں محبت، بہادری اور پشتون شناخت کو پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے ہیرو درمیانی عمر کے لمبی لمبی مونچھوں والے اور بھاری اسلحے سے لیس مرد ہوتے ہیں، جو اپنے سے کہیں کم عمر اور ایک کے بعد دوسرا نغمہ گاتی اور کولہے مٹکاتی ہیروئنوں کے ساتھ پہاڑوں میں گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔

قتل و غارت گری کے مناظر سے بھرپور پشتو فلموں میں بندوقوں، تلواروں، چاقوؤں کا بے دریغ استعمال دکھایا جاتا ہے۔ ان فلموں کے پوسٹروں پر اکثر وحشیانہ آنکھوں والے ایسے مرد دکھائے گئے ہوتے ہیں، جو ایک ایک وقت میں تین تین سگریٹوں کے کش لگا رہے ہوتے ہیں۔

جن سینماؤں میں یہ فلمیں چلتی ہیں، اُن میں سے ایک پشاور کا ارشد سینما بھی ہے۔ کہنے کو تو اس میں پرائیوٹ باکسز بھی ہیں لیکن اندر کا منظر تاریک ہے اور کسمپرسی کی تصویر بنا نظر آتا ہے۔ اس کی پتھریلی سیڑھیاں گرد سے اٹی ہوئی ہیں، دیواریں شکستہ ہیں اور چھت سے ننگی تاریں لٹکی دکھائی دیتی ہیں۔ اس سینما گھر کے بالکل سامنے ایک آٹھ منزلہ جدید میڈیکل سینٹر ہے، جسے اُس پشتو سینما کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے، جسے تباہ کر دیا گیا تھا۔

ارشد سینما کے پروجیکٹر عشروں پرانے ہیں اور چلتے وقت شور کرتے ہیں۔ پردہء اسکرین پر نظر آنے والی تصویر اکثر غیر واضح ہوتی ہے اور آواز بھی خلل کا شکار ہوتی ہے۔ تاہم ارشد سینما کے مینیجر خالد خان نے بتایا:’’لوگ پشتو فلموں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ معاشرے کی کہانیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ تاہم جب لوگ میڈیا میں یہ سنتے ہیں کہ چار یا پانچ خود کُش حملہ آور پشاور میں داخل ہو گئے ہیں تو پھر کوئی بھی سینما میں نہیں آتا۔ ہمیں بہت نقصان ہو رہا ہے۔‘‘

’لوگ پشتو فلموں کو اس لیے دیکھنا پسند کرتے ہیں کیونکہ اُن میں معاشرے کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں‘
’لوگ پشتو فلموں کو اس لیے دیکھنا پسند کرتے ہیں کیونکہ اُن میں معاشرے کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں‘تصویر: Pushto Film

فلم بینوں کی تعداد میں کمی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ فلمیں نہ صرف ایک ہی جیسے گھسے پٹے موضوعات پر بنائی جاتی ہیں بلکہ اب اِن میں فحاشی بھی حدوں کو چھونے لگی ہے۔ 70 سالہ صفدر خان نے بتایا:’’پہلے ہم سینماؤں میں جو فلمیں دیکھتے تھے، اُن میں حقیقی مسائل پر مبنی کہانیاں ہوا کرتی تھیں۔ آج کل سینما گھروں میں جانے کو ایک برا اور شرم ناک فعل خیال کیا جاتا ہے کیونکہ اب ان فلموں میں عریانیت ہوتی ہے۔‘‘

اسکرپٹ رائٹر نذیر بھٹی کے خیال میں موضوعات کی یکسانیت کی وجہ سے پشتو فلمیں زوال کا شکار ہیں۔ ایک اخبار کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا:’’مَیں نے یہ کام اُس وقت چھوڑ دیا، جب مجھے ایک فلسماز نے یہ کہا کہ مَیں اُس میں کچھ بیہودہ مکالمے بھی شامل کروں۔‘‘

ایک زمانے میں ثقافت، تجارت، فن تعمیر اور تعلیم کا مرکز سمجھے جانے والے پشاور شہر میں اب ہر طرف رَش، افراتفری اور تشدد نظر آتا ہے۔

(aa/ai(reuters