1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پابندی نہیں تو پی ٹی آئی میڈیا سے غائب کیوں ہے؟

4 جنوری 2024

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے لاہور ہائی کورٹ میں کہا ہے کہ اس نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی تقاریر اور میڈیا ٹاکس پر پابندی نہیں لگائی ہے۔

https://p.dw.com/p/4arnt
Pakistan Ex-PM Imran Khan
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستان میں سیاست دان، انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافیوں کی تنظیمیں یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ اگر پیمرا نے یہ پابندی نہیں لگائی تو پھر پی ٹی آئی میڈیا پہ نظر کیوں نہیں آرہی۔ کچھ حلقے اس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ 

پیمرا کے وکیل ہارون دوگال نے یہ بیان  عمران خان کی طرف سے دائر کی گئی ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران دیا۔  عمران خان نے گزشتہ برس پیمرا کے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس کے مطابق پیمرا نے ٹیلی ویژن چینلز کو ان کی تقاریر اور میڈیا سے بات چیت کو نشر کرنے پر پابندی لگائی تھی۔ یہ پابندی عمران خان کی اس تقریر کے بعد لگائی تھی جس میں انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

مقدمے کی سماعت جسٹس شمس محمود مرزا نے کی اور دوران سماعت انہوں نے پیمرا پہ زور دیا کہ وہ ٹی وی چینلز پر دباؤ ڈالنے سے اجتناب کرے۔

پی ٹی آئی کی میڈیا پر انتہائی کم موجودگی کیوں؟

اس بیان کے بعد ملک کے کئی حلقوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی کوریج پاکستان کے قومی دھارے کے چینلز پر نمایاں کیوں نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کوریج گزشتہ کچھ مہینوں میں بہت کم ہوئی ہے گیلپ پاکستان کے انچارج بلال گیلانی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، '' ہم ٹاپ 10 ٹاک شوز کے حوالے سے ڈیٹا جمع کر رہے ہیں اور گزشتہ کئی مہینوں میں ان شوز میں پی ٹی آئی کی موجودگی بہت تیزی سے کم ہوئی ہے۔‘‘

Pakistan Islamabad Anwaltsteam von Ex-Premier Imran Khan
عمران خان کی رہائی کے بعد ان کی پارٹی کے اہم لیڈروں کو بھی میڈیا سے دور ہی رکھا گیاتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

کون کنٹرول کرتا ہے؟

 خیال کیا جاتا ہے کہ میڈیا کو ملک کے طاقتور حلقے کنٹرول کرتے ہیں اور وہ جب چاہتے ہیں اور جس رہنما کو چاہتے ہیں اس پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی اس لیے ٹی وی اسکرین پر نظر نہیں آتی کیونکہ ان پر پابندی ایسے لوگوں نے لگائی ہے جن کو نا کہنا میڈیا مالکان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،  ''پیمرا  لاکھ کہتا رہے لیکن عمران خان پر پابندی بھی انہی لوگوں نے لگائی ہے جنہوں نے ماضی میں آصف علی زرداری، الطاف حسین، منظور پشتین، نواز شریفرااور دوسرے لوگوں پہ پابندی لگائی اور وہ میڈیا سے غائب ہو گئے۔‘‘

پاکستان سائفر تنازعہ: ’گفتگو کو غلط سمجھا گیا‘

غیر مرئی قوتیں

پاکستان تحریک انصاف عمران خان پر غیر اعلانیہ پابندی کی ذمہ دار طاقتور حلقوں کو قرار دیتی ہے۔ عمران خان کے معتمد خاص فیصل شیر جان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پیمرا غیر مرئی قوتوں سے ہدایات لیتی ہے۔ یہ واحد ریگولیٹری اتھارٹی ہے جو ابھی بھی وزارت اطلاعات کے ذریعے اپنے اوپر والوں کو رپورٹ کرتی ہے۔ دوسری تمام ریگولیٹری اتھارٹیز کیبنٹ ڈویژن کے ذریعے اپنے اعلی افسران کو رپورٹ کرتی ہیں۔‘‘

فیصل شیر جان کے مطابق پیمرا میں وزارت اطلاعات کے آفیسرز بھرے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول،''جن کو کسی بھی قسم کی کوئی خود مختاری یا آزادی حاصل نہیں ہے اور یہ صرف میں نہیں کہہ رہا بلکہ سپریم کورٹ نے بھی ایک سے زائد کیسز میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے۔‘‘

Pakistanischer Ex-Premier Khan vorübergehend freigelassen
عمران خان پر متعدد مقدمات چل رہے ہیںتصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance

’پیمرا حکم کی بجا آوری کرتی ہے‘

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ پیمرا کو جو حکم دیا جاتا ہے وہ اس کی بجا آوری کرتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اسے حکم دیا گیا کہ پی ٹی آئی کو اسکرین سے غائب کر دیا جائے تو پابندی نہ ہونے کے باوجود بھی پی ٹی آئی اسکرین سے غائب ہے۔‘‘

عمران خان گرفتار، عوام سے احتجاج کی اپيل

فوزیہ کلثوم رانا کے مطابق سب کو پتہ ہے کہ پیمرا کو ہدایات کہاں سے آتی ہیں۔  وہ کہتی ہیں، ''یقینا  عمران خانجب تقریر کرتے تھے تو کبھی وہ نیوٹرل کو جانور کہتے تھے۔ کبھی میر صادق اور میر جعفر کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور اسٹبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔  تو یہ بات واضح ہے کہ ان کو کسی بھی پابندی نہ ہونے کے باوجود اگر اسکرین پہ نہیں دکھایا جا سکتا تو وہ کون لوگ ہیں جو انہیں اسکرین پہ دکھانا نہیں چاہتے۔‘‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر پرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ملکی میڈیا کو اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وہ چینلز کے مالکان کو ایک فون کروا دیتے ہیں اور مالکان ایک فون کال پر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔‘‘

کیا بیان کے بعد حالات بدلیں گے؟

ملک کے کچھ حلقوں میں یہ بھی بحث ہو رہی ہے کہ آیا پیمرا کے اس بیان کے بعد پی ٹی آئی کو میڈیا پر جگہ ملے گی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ انہیں جگہ ملنا اب بھی مشکل ہے۔ اسد بٹ کے مطابق کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ پی ٹی آئی کو میڈیا پر لایا جائے۔ ''لہذا پیمرا کے بیان کے باوجود بھی پی ٹی آئی کے لوگوں کو قومی چینلز پر جگہ نہیں دی جائے گی۔‘‘

Pakistan  Imran Khan Ankunft vor dem Obersten Gerichtshof in Islamabad
عمران خان کے حامیوں کے خلاف بھی سخت کریک ڈاؤن کیا گیاتصویر: STR/REUTERS

ںاصر زیدی کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ بات بھی اسٹشلمنٹ طے کرتی ہے کہ کس ٹاک شو میں کون سے لوگ جائیں گے۔ '' تو ایسے میں پی ٹی آئی کے لوگوں کی کیسے جگہ بنے گی۔‘‘

 تحقیقات کا مطالبہ

 کچھ صحافتی اور انسانی حقوق کے حلقے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ پیمرا کے اس بیان سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوگی اور سوال کریں گے کہ، ''اس ملک میں آئینی اور قانونی طریقے سے مختلف اداروں کو کون چلا رہا ہے۔ ہماری سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ اس معاملات کی پوری تحقیقات کرائے۔‘‘

ناصر زیدی بھی اس مطالبے کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب پیمرا نے یہ پابندی نہیں لگائی تو عوام کو پتہ چلنا چاہیے کہ یہ پابندی کس کے کہنے پہ لگی اور کیوں لگی ۔ زیدی کے بقول، ''جو اس طرح کی پابندی لگانے میں ملوث ہے ان کو قانون کے مطابق سزا بھی دی جانی چاہیے۔‘‘

پیمرا نے تاہم ڈی ڈبلیو کے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔