1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیلی وژن پر’خصوصی افراد‘ کی نمائندگی

24 ستمبر 2021

بین الاقوامی سطح پر الیکٹرانک میڈیا سب سے زياده پہنچ رکھتا ہے اور ٹیلی وژن اس اعتبار سے سرفہرست ہے۔ پاکستانی چینلز پر روزانہ ہزاروں لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان افراد میں خصوصی افراد کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

https://p.dw.com/p/40nA5
Blogerin Sana Zafar
تصویر: Privat

پاکستانی ٹیلی وژن کی نشریات میں ڈرامہ ہمیشہ سے بہت مقبولیت رکھتا ہے۔ ڈراموں میں روزمرہ کے ایسے معاملات پر توجہ مرکوز جاتی ہے، جو ہمارے معاشرے میں عام پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں سے ان ڈراموں میں سے بھی صرف مُٹھی بھر ڈرامے ہی ایسے بنائے گئے ہیں، جہاں کسی خصوصی افراد کو کہانی کا حصہ بنایا گیا ہو۔

ان مھٹی بھر ڈراموں میں بھی زیادہ تر ایسے افراد یا گھرانوں کی بیچارگی کے پہلو کو زیادہ اُجاگر کیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خصوصی افراد کو عام زندگی کا حصہ دکھایا جائے کہ یہ افراد بھی وہیل چیئر، آلائے سماعت، سفید چھڑی یا اشاروں کی زبان وغیرہ کی مدد سے عام زندگی بسر کرتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں اور زندگی کے میدان میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں، جہاں یہ افراد بوجھ نہیں بلکہ خاندان اور پوری قوم کے لیے فخر کا باعث بنے جیسا کہ پاکستان کی نابينا کرکٹ ٹیم دومرتبہ ورلڈ کپ جیت چکی ہے۔

حال ہی میں پیرا اولمپکس میں حیدرعلی نے گولڈ میڈل جیت کر پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کیے ہیں۔ ایسے افراد کو وقتی طور پر خبروں کا حصہ ضرور بنایا جاتا ہے مگر ویسی پذیرائی نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں۔

یہ کامیابیاں صرف کھیلوں تک محدود نہیں ہیں۔ سن 2018 میں 'ڈیف ٹاک' کے نام سے ایک موبائل ایپ تیار کی گئی، جس کے موجد دو پاکستانی افراد باہم معذوری ہیں۔ وامق حسن صاحب ایک کمپیوٹر انجینئر ہیں، جو پیدائشی طور پر قوت سماعت سے محروم ہیں اور علی شبر صاحب ایم بی اے اور ایم فل کی ڈگریاں رکھتے ہیں اور پیدائشی طور پر نابینا ہیں۔ یہ ایپ قوتِ سماعت سے محروم لوگوں کو بات چیت میں آسانی فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح محترمہ زاہدہ قریشی صاحبہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں اور ملتان میں کارخانہ چلاتی ہیں، جہاں معذور افراد کے لیے وہیل چیئر مفت تیار کی جاتی ہیں۔ ایسے لوگ نہ ہمارے ڈراموں کا حصہ ہیں اور نہ ہی ان پر بات کی جاتی ہے۔ اگر ہمارے ڈراموں کے کرداروں میں بھی خصوصی افراد عام گھروں کا حصہ نظر آئیں تو شاید یہ مجموعی طور پر معاشرتی رویے میں نمایاں تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔

اسی طرح باقی نشریات میں نظر آنے والے لوگ مثلاً نیوز کاسٹر، میزبان، تجزیہ نگار اور ماڈلز وغيره میں بھی افراد باہم معذوری بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ہماری قوم فلاح اور مدد کا بہت جذبہ رکھتی ہے مگر کبھی شعور اور کبھی  کوئی ذاتی تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے بے حِس ہوجاتی ہے اور تکلیف دہ القاب اور طنز و مزاح میں حد پار کر دی جاتی ہے، جو دل آزاری اور حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے۔ ایسے رویے کی اجازت ہمارا مذہب بھی قطعاً نہیں دیتا۔ اسی لیے صحیح سمت میں رہنمائی کرنا میڈیا کا فرض بنتا ہے، خاص کر جبکہ میڈیا اتنی طاقت اور رسائی کا حامل ہے۔

حال ہی میں 14 اگست کے موقع پر کچھ اشتہارات دیکھنے کو ملے جن کا مقصد تھا کہ 'پاکستان سب کے لیے‘ کی عکاسی کی جائے۔ ان میں ہر طبقے ہر رنگ اور ہر صوبے کے افراد کے ساتھ ساتھ خصوصی افراد کی بھی مکمل نمائندگی دکھائی گئی۔ ان اشتہارات کو عوام میں بہت پذیرائی ملی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے لوگ روزمرہ معاملات میں مثبت پہلوؤں کو کھلے دِل سے قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہمیں ٹی وی پر بھی زیادہ سے زیادہ خصوصی افراد دیکھنے کو ملیں تو آہستہ آہستہ نہ تو یہ اچنبھے کی بات رہے گی اور نہ ہی خصوصی افراد کو سکول، کالج، دفاتر سے لے کر نجی تقریبات اور محفلوں میں قبول کرنے اور یکساں عزت دینے میں کوئی دِقّت ہو گی۔ اگر کسی خاندان میں کوئی بھی خصوصی فرد پایا جاتا ہے تو وہ نہ تو ترس کی امید رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی امتیازی سلوک کی۔ وہ صرف قبولیت چاہتے ہیں۔

ایسے افراد جو ذہنی یا جسمانی طور پر کچھ مختلف ہیں، نابینا ہیں، قوتِ گویائی یا سماعت سے محروم ہیں، ان کو بھی کسی نہ کسی طریقے سے اگر تمام میں نہیں تو کچھ پروگرامز میں شامل کیا ہی جا سکتا ہے۔ یہ افراد بھی اسی طرح ہمارے معاشرے اور قوم کا حصہ ہیں جیسا کہ باقی سب۔