1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ کی پالیسی، جنوبی ایشیا مزید غیر مستحکم ہو جائے گا؟

عابد حسین شامل شمس
29 اگست 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان بارے پالیسی سے خطے کی جغرافیائی سیاست غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔ پاکستان ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے چین کے افغان معاملے میں بڑے کردار کا متمنی دکھائی دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2j1Nf
USA Fort Myer Trump Rede Afghanistan Strategie
تصویر: picture-alliance/Pool via CNP/MediaPunch/M. Wilson

یہ امر اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے قبل باراک اوباما اور جارج ڈبلیو بُش بھی پاکستان کی طالبان کے لیے ’اسلامی حمایت‘ کے تناظر میں پیدا دہرے کردار پر شاکی تھے۔ اس کے باوجود ان صدور نے اپنی پالیسیوں میں اسے مرکزی حیثیت نہیں دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی میں پاکستان کے اس کردار کو مرکزیت فراہم کر کے غیر معمولی اہمیت دی ہے۔

نئی امریکی پالیسی کے تحت ٹرمپ پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے کے علاوہ پاکستانی علاقوں پر یک طرفہ فضائی حملوں کا حکم دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی حکومت اور فوج کے اہلکاروں کو امریکی پابندیوں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

پاکستانی قربانیوں کا احترام کیا جائے، چین

ٹرمپ کے بیان نے پاکستانیوں کو تکلیف پہنچائی، عمران خان

پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی کے مصنف حسین حقانی ؟

ٹرمپ کی افغان پالیسی پاکستان میں زیرِ بحث

ٹرمپ کی اس پالیسی پر پاکستانی حکومت اور حزب اختلاف نے کھلے انداز میں برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس پالیسی کے تناظر میں پاکستانی وزیر خارجہ چین، روس اور ترکی کے دورے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

افغانستان: مرکزی کردار

امریکی صدر کی پالیسی پر افغانستان میں قائم اشرف غنی کی حکومت نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ کابل حکومت کا کہنا ہے کہ انجام کار امریکا نے بھی اس مسئلے میں پاکستانی کردار کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اس حوالے سے افغان اہلکار پہلے بھی ایسے ہی موقف بیان کرتے رہے ہیں۔

USA Fort Myer Trump Rede Afghanistan Strategie
ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان بارے اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/Pool via CNP/MediaPunch/M. Wilson

غنی حکومت نے یقین ظاہر کیا ہے کہ اس پالیسی سے نئے راستے کھلیں گے اور مسلح تنازعے کا حل ممکن ہے۔ افغان صدر کے ترجمان نے کہا کہ نئی پالیسی میں تنازعے کے خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی سے امریکا اور افغانستان کو فائدہ پہنچے گا۔ ڈی ڈبلیو کی پشتو سروس کو کابل یونیورسٹی سے منسلک وادر صافی نے بتایا کہ اگر پاکستان افغان تنازعے کے خاتمے کے لیے مثبت کردار ادا نہیں کرے گا تو اُسے سخت نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پاکستانی امداد کی ضرورت

پاکستانی حکومتی حلقے کا خیال ہے کہ مستقبل میں بھی افغان جنگ میں معاونت اور تنازعے کے حل کے لیے امریکا کو اسلام آباد پر انحصار کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں پاکستانی قبائلی علاقوں پر ڈرونز حملوں میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

یہ بھی اہم ہے کہ اسلام آباد کی یہ بھی کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو محدود کرے اور امریکی فوج کے مکمل انخلا کا منتظر رہے۔ پاکستانی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر خوش ہونے کی ضروت نہیں کیونکہ امریکا کو اپنے مزید فوجیوں کی تعیناتی میں پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی جانب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد پاکستان امریکا پر انحصار کم کرنے کی جراٴت کر سکتا ہے۔

Symbolbild Taliban
افغان طالبان کے لیے پاکستانی مذہبی حلقے ہمدردی رکھتے ہیںتصویر: Getty Images/M. Saeedi

افغانستان اور چین

چین کی اکیڈیمی برائے سوشل سائنسز کے ایک محقق یی ہیلین کا کہنا ہے کہ علاقائی قوتوں کی اندرونی کشمکش دہشت گردوں کو شکست دینے میں منفی اثرات کی حامل ہو سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان چین نے مصالحتی کردار اپناتے ہوئے اپنے اسٹریٹیجیک مفاد کے تناظر میں دہشت گردی کو شکست دینے کو خاص اہمیت دے رکھی ہے۔

چینی ریسرچر کے بقول پاکستان کا انسداد دہشت گردی کی بین الاقوامی کوششوں میں کردار واضح ہے اور امریکی الزام تراشی نامناسب ہے۔ یی ہیلین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد کوئی خیرات نہیں بلکہ افغانستان میں نیٹو کی سپلائی کے عمل اور ایندھن کی فراہمی میں پاکستان کی معاونت موجود رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کو محفوظ کرنے کے لیے بھی افغانستان میں امن کا قیام اہم ہے۔

Indien Ashraf Ghani in Neu-Delhi
افغان صدر اشرف غنی کے دفتر نے ٹرمپ کی بیان کردہ پالیسی کا خیرمقدم کیا ہےتصویر: Reuters/Str

غیر جانبداری کا آپشن

ڈی ڈبلیو کی ہندی سروس کے ساتھ بھارتی دارالحکومت میں مقیم افغان امور کے ماہر قمر آغا کا خیال ہے کہ پاکستان بھارت کو اپنا مرکزی دشمن تصور کرتا ہے اور اب جب کہ امریکا افغانستان میں ایک بڑے کردار کا متمنی ہے تو ایسے میں اسلام آباد بیجنگ حکومت کے مزید قریب ہونے کی کوشش کرے گا۔ آغا کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی پالیسی میں یہ واضح نہیں کہ آیا امریکی صدر بھارت کا تعاون بھی چاہتے ہیں۔

دوسری جانب بھارت اور پاکستان میں سرگرم حلقوں کا خیال ہے کہ ان دونوں ملکوں کو امریکا و چین کی بین الاقوامی مسابقتی عمل کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ان بڑی طاقتوں کے افغانستان کے علاوہ وسطی ایشیا میں اپنے اپنے مفادات ہیں۔