1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپی اراکین پارلیمان کا وزیراعظم پاکستان کو ’دھمکی آمیز‘ خط

شیراز راج
4 مئی 2019

يورپی پارليمان کے 51 ارکان کی جانب سے لکھے گئے مشترکہ خط کے مطابق اگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی بند نہ کی گئی، تو پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے ختم کرنے کی سفارش کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/3Hv1C
Indien Pakistan Symbolbild Vergewaltigung
تصویر: picture alliance / AA

اراکین پارلیمنٹ نے اپنے خط کا آغاز پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کے بنیادی حقوق کی پامالی کے واقعات پر شدید تشویش کے اظہار سے کیا ہے۔ خط کے مطابق  پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے ایک ایسے ملک کا خواب دیکھا تھا جہاں مسلم اکثریت اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے گا تاہم پچھلی سات دہائیوں کے دوران، مرحلہ وار ایک ایسا نظام قائم ہوا جس ميں اقلیتوں کے ساتھ سماجی، سیاسی اور معاشی سطح پر امتیازی سلوک کو تقویت دی گئی اور نتيجتاً انتہا پسند گروہوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

غیر منصفانہ آئینی ڈھانچہ منہدم کیا جائے

دو صفحات پر مشتمل خط میں کہا گیا ہے کہ سن 1949 میں قراداد کے مقاصد نے یہ طے کر دیا تھا کہ مستقبل کا پاکستانی آئین نظریاتی غلبہ کے تحت تشکیل پائے گا، لہذا آج پاکستانی قوانین جانبدار ہیں۔ خط میں احمدیوں کے خلاف پرتشدد واقعات اور مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے حوالہ سے امتیازی قوانین کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ايسے قوانين کی بدولت ’انتہا پسندوں کو بلا روک ٹوک مذہبی اقلیتوں پر حملے کرنے کی طاقت ملتی ہے۔ ان قوانین کے مسلسل غلط استعمال کے باوجود انہیں ختم کرنے کی کوشش نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست ان کے حق میں ہے۔‘

خط میں جبری تبدیلی مذہب کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’موومنٹ فار سالڈیریٹی اینڈ پیس‘ کی رپورٹ کے مطابق ہر برس مسیحی اور ہندو مذاہب سے تعلق رکھنے والی ایک ہزار لڑکیوں کو، جو اکثر نابالغ ہوتی ہیں، اغوا کیا جاتا ہے اور جبراً مسلمان کر کے ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح انتہائی طاقتور انتہا پسند گروہوں کی جانب سے اقلیتوں پر تشدد اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کے واقعات سالہا سال سے جاری ہیں۔

خط کے مطابق ’شہری و سیاسی حقوق کا اعلامیہ ان ستائیس عالمی دستاویزات میں شامل ہے، جن پر عملدرآمد یورپی یونین اور پاکستان کے درمیان  ترجیحی تجارتی معاہدہ (جی ایس پی پلس) کی شرائط میں شامل ہے۔ اگر شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقو امی اعلامیے کی خلاف ورزی، خصوصاً مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی، اسی طرح جاری رہی تو یورپی کمشن سے یہ مطالبہ کيا جائے گا کہ جی ایس پی پلس کے تحت پاکستان کو حاصل تجارتی مراعات اس وقت تک معطل کر دی جائیں جب تک پاکستان شہری و سیاسی حقوق کے اعلامیے پر حقیقی عملدرآمد کی یقین دہانی نہیں کراتا۔ لہذا ارکان پارليمان اسلامی جمہوریہ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس آئینی اور ادارہ جاتی ڈھانچے کو منہدم کر دے جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا باعث بن رہا ہے۔‘

پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے

مندرجہ بالا خط کے ساتھ ایک اور خبر شائع کی گئی ہے جس کے مطابق امریکی کمشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سن 2019 کی رپورٹ میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ’خصوصی تشویش‘ والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کو متعلقہ پابندیوں سے بچاؤ کا پروانہ جاری نہ کرے۔ رپورٹ میں ان چالیس افراد کا حوالہ دیا گیا ہے جنہیں توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ امتیازی قوانین کا خاتمہ کيا جائے اور سپریم کورٹ کے سن 2014کے فیصلہ کے مطابق مذہبی اقلیتوں کے لیے قومی کمشن قائم کيا جائے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے، سینٹر فار لیگل ایڈ کے بانی جوزف فرانسس نے کہا کہ 'پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی حقیقی صورت حال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ پولیس، عدلیہ، سیاست دان، میڈیا اور معاشرہ سبھی انتہا پسندوں سے خوف زدہ ہیں۔ اپریل کے مہینے میں کمسن بجیوں کے اغواء اور جبری تبدیلی مذہب کے پندرہ کیسز کی پیروی کی گئی تاہم عدالتوں سے کسی کو انصاف نہیں ملا۔‘

ڈی ڈبلیو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انسانی حقوق کی سرگرم رہنما اور قائد اعظم یونیورسٹی کی ریٹائرڈ پروفیسر، ڈاکٹر فرزانہ باری نے کہا ، ’’یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور ان کے حقوق اور آزادیاں سلب کی جا رہی ہیں تاہم یورپی اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے لکھے گئے خط کے محرکات سیاسی ہیں۔ درحقیقت امریکا اپنے ساتھ یورپی یونین کو ملا کر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے کیونکہ پاکستان امریکا کے تسلط سے نکل کر چین کے ساتھ شراکت داری قائم کر رہا ہے۔ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے اور ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کی تادیب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک یہ بھول گئے ہیں کہ دہشت گرد گروہ انہوں نے ہی بنائے تھے۔‘‘

پاکستان اس خط کا جواب دینے کا پابند نہیں

بیلجیم میں پاکستانی سفارت خانے کی پریس ونگ کی سربراہ، سیدہ سلطانہ رضوی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ’’یہ خط یورپی پارلیمنٹ کی طرف سے نہیں بلکہ چند اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے لکھا گیا ہے اور حکومت پاکستان اس کا جواب دینے کی پابند نہیں۔ چند ہفتے پہلے کچھ اراکین پارلیمنٹ نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف انتہائی سخت خط لکھا تھا جس میں کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں خصوصاً پیلٹ گن کے استعمال کی شدید مذمت کی گئی تھی لیکن بھارت نے اس خط کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی وزیر انسانی حقوق نے اپنے حالیہ دورہ برسلز میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ پاکستان اقلیتوں کے انسانی حقوق کی حفاظت کسی دباؤ کے تحت نہیں بلکہ معاشرتی استحکام اور اپنے اصولوں کی خاطر کرنا چاہتا ہے۔ سیدہ سلطانہ نے کہا، ’’ہندو اور مسیحی بچیوں کی جبری تبدیلی مذہب یا آسیہ بی بی کی غیر قانونی حراست ایک بالکل الگ معاملہ ہے اور اسے اس خط سے گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

یورپی پارلیمنٹ کے رکن، سجاد حیدر کریم کا کہنا تھا، ’’ہمیں پاک یورپی تعلقات سے متعلق  کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں تو یہ خط پاک یورپ تعلقات کے حوالے سے مستقبل قریب میں متوقع ایک انتہائی مثبت پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کے لیے لکھا گیا ہے۔‘‘

پشاور کے وسط میں مسجد اور گرجا گھر ساتھ ساتھ