1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وارن وائن اسٹائن کے اغواء ميں ملوث دو جنگجو ہلاک

15 جنوری 2019

پاکستانی سکيورٹی حکام نے امريکی شہری وارن وائن اسٹائن کے اغواء ميں ملوث دو شدت پسندوں کو انسداد دہشت گردی کی ايک کارروائی ميں ہلاک کرنے کا دعویٰ کيا ہے۔ فی الحال يہ واضح نہيں دونوں کا وائن اسٹائن کے کيس سے کيا تعلق تھا۔

https://p.dw.com/p/3BZo5
Pakistan Militär Patrouille Peschawar
تصویر: REUTERS/F. Aziz

پاکستانی سکيورٹی فورسز نے ترقياتی کاموں کے ليے ملک ميں تعينات امريکی شہری وارن وائن اسٹائن کے سن 2011 ميں ہونے والے اغواء ميں ملوث دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے دو مشتبہ ارکان کو ايک کارروائی ميں ہلاک کر ديا ہے۔ صوبہ پنجاب کے انسداد دہشت گردی محکمے سے منسلک رائے طاہر نے ايک بيان ميں عديل حفيظ اور عثمان ہارون نامی جگجوؤں کی فيصل آباد ميں منگل پندرہ جنوری کی صبح ہلاکت کی تصديق کی۔ انہوں نے بتايا کہ الصبح سکيورٹی فورسز نے جگجوؤں کی ايک پناہ گاہ پر چھاپہ مارا، جہاں فائرنگ کے تبادلے ميں يہ دونوں ہلاک ہو گئے۔ واضح رہے کہ يہ دونوں پہلے القاعدہ کے ارکان تھے تاہم بعد ازاں انہوں نے ’اسلامک اسٹيٹ‘ ميں شموليت اختيار کی۔

وارن وائن اسٹائن کو سن 2011 ميں لاہور سے اغواء کيا گيا تھا۔ وہ پاک افغان سرحد پر سن 2015 ميں کيے گئے ايک امريکی ڈرون حملے ميں حادثاتی طور پر ہلاک ہو گئے تھے گو کہ حملے کا ہدف وہ نہ تھے۔ اس وقت کے امريکی صدر باراک اوباما نے کہا تھا کہ وہ انسداد دہشت گردی کے تمام امريکی مشنز کی ذمہ داری ليتے ہيں اور ان کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے تعزيت کرتے ہيں۔

Warren Weinstein Kidnapping Pakistan Entführungsopfer
تصویر: picture-alliance/dpa

رائے طاہر نے منگل کو جاری کردہ اپنے بيان ميں يہ دعویٰ بھی کيا کہ مقتول شدت پسند سابق پاکستانی وزير اعظم يوسف رضا گيلانی کے بيٹے علی حيدر کو سن 2013 ميں اغواء کيے جانے کی واردات ميں بھی ملوث تھے۔ علی حيدر گيلانی کو امريکی فورسز نے سن 2016 ميں افغانستان سے بازياب کرا ليا تھا۔ انسداد دہشت گردی محکمے سے وابستہ رائے طاہر نے مزيد بتايا کہ عديل حفيظ اور عثمان ہارون نے کئی حملوں کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، جسے سکيورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ناکام بنا ديا۔ علاوہ ازيں يہ دونوں پاکستانی انٹيليجنس اہلکاروں کی ہلاکت ميں بھی ملوث تھے۔

دفاعی ماہرين کے مطابق دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ کے کئی ارکان چند برس قبل ’اسلامک اسٹيٹ‘ کی صفوں ميں شامل ہوئے تھے۔ يہ پيش رفت اس وقت ہوئی تھی، جب داعش کے نام سے جانی جانے والی يہ تنظيم عراق اور شام کے بيشتر حصوں پر قابض تھی۔ اب البتہ مشرق وسطیٰ کے ان دونوں ملکوں ميں داعش کو شکست دی جا چکی ہے اور صرف چند ہی علاقوں ميں اس کا زور باقی ہے۔

ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں