1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیویارک یاترا کی یادیں

29 ستمبر 2019

حکمران آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن کچھ باتیں اور کچھ قصے رہ جاتے ہیں۔ نیو یارک سے رفعت سیعد کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3QS65
USA Raffat Saeed
تصویر: Privat

میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کوریج کیلئے نوے کی دہائی میں نیویارک آیا۔ اس وقت بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت تھا۔ یہاں ان کی جس انداز میں پذیرائی ہوئی وہ ناقابل بیان تھی۔ پاکستان امریکا کی آنکھ کا تارہ تھا اور ملک کی خاتون وزیر اعظم امریکی میڈیا کی توجہ کا مرکز تھیں۔ ہر بڑا صحافی بے نظیر بھٹو کا انٹرویو کرنا چاہتا تھا۔

بے نظیر بھٹو جب جب نیو یارک آئیں انہوں نے ہمیشہ روز ویٹ ہوٹل میں قیام کیا۔ اس کی بڑی وجہ ہوٹل کی پاکستانی ملکیت اور اقوام متحدہ کے دفتر سے قریبی فاصلہ تھا۔ ایک مرتبہ پاکستان کے ایک معروف سیاسی رہنما جو کشمیر کے حوالے سے اہم عہدے پر بھی فائز تھے بے نظیر بھٹو کے ہمراہ نیو یارک آئے۔

موصوف کا قیام بھی روز ویلٹ ہوٹل میں ہی تھا۔ ایک روز انہوں نے ہوٹل کے عملے سے شکایات کی کہ لابی میں نماز کی ادائیگی کے دوران انہوں نے اپنا بریف کیس سامنے رکھ لیا تھا، جس میں دس لاکھ ڈالر تھے اور وہ کوئی سیاہ فام شخص اٹھا کر لے گیا ہے، یہ بات وہاں موجود صحافیوں میں بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ یہ پتہ نہ چل سکا کہ اتنا پیسہ آیا کہاں سے اور گیا کہاں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ بھی کئی مرتبہ امریکا آنا ہوا۔ انہوں نے ہمیشہ روز ویلٹ ہوٹل کی بجائے نیو یارک کے ایک اور مہنگے ترین ہوٹل 'وارلڈآف ایسٹوریا‘ میں قیام کو ترجیح دی جہاں امریکی صدور بھی ٹھہرتے ہیں۔

 میاں صاحب ہمیشہ ہی طیارہ بھر کر صحافیوں کی فوج ظفر موج نیو یارک لایا کرتے تھے۔ بعد کے برسوں میں یہ انداز تبدیل ہوا اور صحافیوں کو اسلام آباد میں ہی الگ الگ پروازوں کے ٹکٹ اور خرچے کے پیسے فراہم کیے جانے لگے۔ بدلے میں پاکستانی میڈیا میں تو نواز شریف کو اچھی کوریج ملتی رہی لیکن امریکا اور عالمی میڈیا سے وہ پذیرائی نہ مل سکی جو ان کی خواہش تھی۔ سفارتخانے والے بہ مشکل ایک آدھ انٹرویو کروا پاتے تھے جبکہ دوسری طرف بھارتی وزیراعظم میڈیا پر چھایا رہتا۔

 پھر جنرل  مشرف کا دور آیا۔ مشرف صاحب کی ملاقاتوں اور باتوں میں خبریں ہی خبریں ہوا کرتی تھیں۔ میڈیا ان کا تعاقب کرتا تھا۔ ان کے دو جملے ریکارڈ کرنے کے لیے صحافی گھنٹوں انتظار کیا کرتے۔ امریکی انتظامیہ اور سیکورٹی جنرل مشرف کےآگے پیچھے ایسے ہوتی جیسے وہ پاکستان کی نہیں امریکا کے صدر ہوں۔

مشرف دور میں بھی پاکستانی صحافیوں کو نوازنے اور امریکا کی سیر کے خوب مواقع فراہم کیے گئے۔ پاکستانی صحافی امریکا کی مہنگی ترین برانڈڈ دکانوں میں خریداری کرتے دکھائی دیتے۔

صدر مشرف کے ساتھ آئے وزرا اور صحافی بعض اوقات تو ایسی حرکات کیا کرتے تھے کہ سرشرم سے جھک جاتا۔ ایک مرتبہ رات گئے میں اور عظم میاں روز ویلٹ ہوٹل کی لابی میں گپ لگارہے تھے کہ ایک اعلٰی کشمیری عہدے دار کثرت مے کشی کے باعث لڑکھڑاتے ہوئے لابی میں پہنچے، ہم دور سے دیکھ کر ہی معاملہ سمجھ گئے اور اس سے قبل کہ کوئی اور دیکھے موصوف کو سہارا دے کر ان کے کمرے تک پہنچا دیا۔

اسی دورے میں ہم نے یہ بھی دیکھا کے صحافیوں کو رقوم کن بہانوں سے دی جاتی ہیں۔ لابی میں دیگر صحافیوں کےساتھ بیٹھا تھا کہ پریس اتاشی آئے اور پاکستان سے آئے دو سینیئر صحافیوں کو دو لفافے دیے کہ ان کے رشتے داروں کو اسلام آباد اور لاہور میں پہنچا دیں تو مہربانی ہوگی۔ بعد میں پتہ لگا کہ یہ پیسے دراصل ان  صحافیوں کے شاپنگ وغیرہ کے لیے تھما دیے گئے تھے۔

یہاں یہ واضح کردوں کہ میں جب بھی بیرون ملک دوروں پر گیا سرکاری خرچ پر نہیں گیا، بلکہ جن اداروں  میں کام کیا ان کی طرف سے جاتا رہا۔

بہرحال اس سال عمران خان پہلی بار بطور وزیراعظم اقوام متحدہ خطاب کے لیے آئے۔ وہ بھی روز ویلٹ ہوٹل کے اسی سوئٹ میں مقیم رہے جہاں صدر مشرف رہا کرتے تھے۔ روز ویلٹ ہوٹل کی پرانی رونقیں بحال ہوتی دکھائی دیں۔

ماضی کے برخلاف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس بار دو سو کے قریب صحافیوں کا دستہ ساتھ لائے تھے۔ امریکی حکام مودی کو اہمیت دے رہے تھے لیکن میڈیا بھی سمجھ چکا تھا کہ یہ معاملہ تجارتی مفادات کا ہے۔ اس لیے امریکی میڈیا کی عمران خان میں زیادہ دلچسپی نظر آئی، جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ بھی اٹھانے کی کوشش کی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں