1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز شریف کی تقریر، کئی حلقوں میں ہلچل

عبدالستار، اسلام آباد
21 ستمبر 2020

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر نے ملک کے سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی ہے۔ تاہم کئی ناقدین یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ آیا ن لیگ اس تقریر کے بعد آنے والے دباؤ کو برداشت کر پائے گی؟

https://p.dw.com/p/3inap
Pakistan Nawaz Sharif
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary

اس تقریر کے بعد حکومت کے وزراء سابق وزیر اعظم پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ نواز شریف کی تقریر میں عسکری حلقوں پر سنگین الزامات لگائے گئے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق ن لیگ ممکنہ طور پر آنے والے دباؤکو برداشت نہیں کر پائے گی جب کہ پارٹی کا دعوی ہے کہ اس نے ماضی میں بھی سختیاں برداشت کیں ہیں اور اب بھی وہ ووٹ کو عزت دلانے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہے۔

معروف تجزیہ نگار ایم ضیاء الدین کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سخت ردعمل آسکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''نواز شریف کی تقریر تو ڈان لیکس سے بھی بڑا واقعہ ہے، جس پر یقینا اسٹیبلشمنٹ چراغ پا ہوگی اور اس کا ردعمل سخت ہو سکتا ہے، جو ن لیگ برداشت نہیں کر پائے گی۔ میرے خیال میں ایسی کسی صورت میں نواز شریف کو دوسرا الطاف حسین بنا دیا جائے گا جب کہ شہباز شریف ننانوے کی طرح خاموش ہوجائیں گے۔‘‘

Pakistan: Parteiversammlung in Islamabad I  Maryam Nawaz und Bilawal Bhutto Zardar
تصویر: PPI/ZUMA Wire/picture-alliance

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کل حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی طاقت ور فوج کی سیاست میں مداخلت کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی حکومتوں کے ہاتھ پیر جکڑ دیے جاتے ہیں جب کہ منتخب حکومتوں کے علم میں لائے بغیر کئی ایسی کارروائیاں کی جاتی ہیں، جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں پی پی پی کے رہنما نے ریاست کے اندر ریاست بنانے کی بات کا تذکرہ کیا تھا۔

نواز شریف کا اصل چہرہ سامنے آگیا

نواز شریف کے اس بیان پر عسکری حلقوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے لیکن میڈیا پر ریاستی اداروں کا دفاع کرنے والے حلقے اس بیان پر چراغ پا ہیں۔

تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کا کہنا ہے کہ اس تقریر نے نواز شریف کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب سے انہیں جنرل مشرف نے اقتدار سے نکالا ہے وہ ریاستی اداروں کے خلاف بول رہے ہیں۔ انہوں نے اجمل قصاب کے معاملے میں بھی پاکستان کے خلاف بیان دیے اور پھر بھارتی صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں بھی دو قومی نظریے پر سوال اٹھائے۔‘‘

ان کا مذید کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اس کا سخت ردعمل نہیں آئے گا۔ ''لیکن میرے خیال میں اس مسئلے کو سیاسی طور پر نمٹا جائے گا اور حکومت ہی اس مسئلے سے نمٹے گی۔ ممکن ہے کہ آرمی چیف وزیر اعظم سے ملاقات کر کے عسکری حلقوں کے تحفظات سے ان کو آگاہ کریں۔‘‘

asif ali zardari und Muhammat Nawaz Sharif
تصویر: DW/Shezad

ممکنہ دباؤ اور ن لیگ

ملک کے کئی حلقے میاں نواز شریف کی تقریر کو ریاستی اداروں کے خلاف اعلان جنگ قرار دے رہے ہیں لیکن کئی سیاست دان اور تجزیہ نگاروں کے خیال میں اگر ن لیگ پر اس تقریر کے بعد مزید دباؤ آیا، تو وہ اسے برداشت نہیں کر پائے گی۔

سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ ن لیگ کا ٹریک ریکارڈ تو یہی ہے کہ وہ دباؤ میں آجاتی ہے۔ ''میرے خیال میں جب ان پر جی ایچ کیو کی طرف سے پریشر آئے گا یا انہیں مقدمات کی واپسی کی صورت میں کچھ رعاتیں ملیں گی تو وہ ٹھنڈے ہوجائیں گے۔

اس کے علاوہ حزب اختلاف میں یکجہتی قائم رکھنا بھی مشکل ہوگی۔ فضل الرحمن نے تو ابھی سے شکایات شروع کر دی ہیں کہ ان کی تقریر نشر نہیں ہوئی۔‘‘

ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ وہ جی ایچ کیو سے اچھے مراسم کے خواہاں ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کی تقریر شہباز شریف کی طرز سیاست پر خود کش حملہ ہے۔

کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر نون لیگ پر سختیاں آئیں توسابق وزیر اعلی پنجاب خاموشی اختیار کر لیں گے۔

China Peking Imran Khan trifft Xi Jinping
تصویر: Reuters/P. Song

سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں

ن لیگ کا کہنا ہے کہ اسے جمہوریت کے لیے اپنی قربانیاں گنوانے کی ضرورت نہیں اور یہ کہ شریف فیملی نے جمہوری اصولوں پر چلنے کی بہت بڑی قیمت ادا کی اور کر رہی ہے۔ پارٹی کے سنیئیر رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ن لیگ سے یہ پوچھنا کہ وہ سختیاں برداشت کر سکے گی بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی نامور لکھاری سے پوچھا جائے کہ اسے لکھنا آتا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ٹریک ریکارڈ پر شک کرنے والے ہمیں بتائیں کہ کیا ہمارے رہنماؤں نے جیلیں نہیں کاٹی؟ کیا خواجہ آصف اور خواجہ سعد پر تشدد نہیں ہوا؟ کیا شاہد خاقان عباسی نے قیدوبند کی صعوبتیں نہیں اٹھائی؟ کیا رانا ثناء اللہ پر تشدد نہیں ہوا؟ کیا احسن اقبال اور دیگر رہنما آج بھی مقدمات کا سامنا نہیں کر رہے ہیں؟ تو ہمارا ٹریک ریکارڈ جدوجہد سے بھرا ہوا ہے۔

ہم نے انیس سوننانوے سے لے کر دوہزار گیارہ تک جدوجہد کی اور دوہزار اٹھارہ سے ابھی تک جدوجہد ہی کر رہے ہیں۔ ہم پر مصائب کے پہاڑ آج بھی توڑے جارہے ہیں۔‘‘