1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ندامت اور نظریے کے درمیان 'داعش کے ایک رکن کی اہلیہ‘

3 اکتوبر 2019

شامی کرد مراکز میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے ہزاروں غیر ملکی حامیوں کو رکھا گیا ہے۔ زیادہ تر یورپی ممالک انہیں قبول نہیں کر رہے تاہم کوسووو اپنے شہریوں کو واپس لا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایسی ہی ایک خاتون سے ملاقات کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3QgkE
IS-Rückkehrerin Vlora
تصویر: DW

منصور ہوتی کوسووو کے دارالحکومت پرسٹینا میں ایک کیفے میں بیھٹے ہوئے سگریٹ پی رہے ہیں۔ قومی تحفظ کے ملکی ادارے کے یہ سربراہ بیس اپریل کی علی الصبح کی جانے والی ایک کارروائی کی تفصیلات بتا رہے تھے۔ جب اندھیرے میں ایک چارٹرڈ جہاز پرسٹینا کے ہوائی اڈے پر اترا تو ہوتی اس پوری کارروائی کی نگرانی کر رہے تھے۔ اس جہاز پر کوسووو کے ایک سو دس ایسے شہری سوار تھے، جو 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کا ساتھ دینے کے وجہ سے گرفتار کیے گئے تھے اور وہ شمالی شام میں کرد کیمپوں میں مقید تھے۔ ان افراد کے رشتہ داروں کو بھی ان کی واپسی کا علم نہیں تھا۔

Kosovo IS-Rückkehrerin Vlora
تصویر: DW

رات کے اندھیرے میں شام سے واپسی

کافی کا ایک چُسکی لیتے ہوئے ہوتی نے بتایا کہ اس پیچیدہ آپریشن کے دوران وہ کئی دنوں تک جاگتے رہے تھے۔ ان کے بقول کوسووو کے کردوں کی شامی ڈیموکریٹک فورس ( ایس ڈی ایف) کے ساتھ باقاعدہ روابط نہیں تھے اور یہ تنظیم شمالی شام کے ایک بڑے حصے پر قابض بھی ہے، '' کردوں کے اتحادی امریکی دستے علاقے میں کئی مختلف مقامات پر تعینات ہیں اور ان کی وجہ سے کوسووو کی یہ کارروائی کامیاب ہو پائی۔‘‘

جہاز میں کون تھا؟

پرسٹینا پہنچنے والے جہاز پر بتیس خواتین، چوہتر بچے اور چار مرد موجود تھے۔ اس موقع پر ہوائی اڈے کو عام مسافروں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ چاروں مردوں کو ایک جیل بھیج دیا گیا جبکہ خواتین اور بچوں کو ہوائی اڈے پر ہی نفسیاتی مدد فراہم کی گئی۔

Syrien Befreiung IS-Gebiete Frauen
تصویر: AFP/D. Souleiman

ہوتی کے بقول، '' ہمیں علم ہے کہ کئی مہینوں سے انہیں بہت مشکل حالات کا سامنا رہا ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے مزید بتایا کہ مشکل ترین کام ان افراد کی نظریاتی تربیت ہے اور یہ بہت ہی بڑا مسئلہ ہے۔‘‘

'ذہن میں خلافت‘

ولورا سے پہلی ملاقات میں ہی ہوتی کا دعوی سچ لگنے لگا۔ وہ بھی دیگر افراد کی طرح  چھ ماہ قبل ہی کوسووو واپس آئی ہے۔ اس رپورٹ میں اس کا اصل نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ولورا کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے اور وہ اپنے والدین کے گھر میں نظر بند ہے۔ یہ گھر ہے تو بہت ہی پر فضا مقام پر مگر اس چھوٹے سے مکان کی ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں ولورا کے والدین کی غربت کی کہانی سنا رہی ہے۔

بائیس سالہ ولورا پانچ سال تک 'اسلامک اسٹیٹ‘ کی نام نہاد 'خلافت‘  میں رہتی رہی ہے۔ وہ آج اپنے گھر میں بھی سر سے پیر تک کا نقاب اتارنا نہیں چاہتی۔ اس کے بقول مذہب اس کی زندگی میں آج بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ ایک دو سالہ بچے کی ماں بھی ہے۔ اس کے اصرار پر بچے کے جنس بھی مخفی رکھی جا رہی ہے۔

Libanon Junge Syrer in Beirut
تصویر: DW/A. Vohra.

بائیس برس اور دو مرتبہ بیوہ

ولورا کا بچہ کبھی اپنے باپ سے نہیں مل سکے گا،''میں اپنے شوہر کے پاس تھی، جب  اس کا انتقال ہوا۔ ہم ایک ساتھ تھے اور گھر سے باہر نکلتے ہی وہ ایک راکٹ کی زد میں آ گیا۔‘‘ ہلاک ہونے والا شخص آئی ایس کے ان تین شدت پسندوں میں سے ایک تھا، جس سے ولورا نے اس کم عمری  میں دوسری شادی کی تھی۔

کوسووو کے جس شہری کے ساتھ وہ سترہ برس کی عمر میں آئی ایس کی خلافت میں گئی تھی، وہ بھی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔ ولورا کا تیسرا شوہر شمالی شام میں کرد حکام کی قید میں ابھی بھی ہے۔ اس کا تعلق بلقان سے ہی ہے۔ اپریل میں جب وہ کوسووو واپس پہنچی تو اس کا بچہ کمزوری کی وجہ سے کھڑا بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے بقول ایسے بھی دن آئے تھے، جب انہیں صرف ایک کھجور پر گزارا کرنا پڑا اور پریشانی کی وجہ سے انہیں گھاس بھی کھانا پڑی۔

ندامت اور نظریے کے درمیان

ولورا کے بقول آئی ایس کا ساتھ دینا ایک غلطی تھی۔ تاہم وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کوسووو واپسی پر اسے اور دیگر افراد کو دہشت گرد تنظیم سے تعلق کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کیوں کرنا پڑے گا، ''ہم صرف گھر میں ہی رہتے تھے، ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ ہمارے کوئی غلط ارادے نہیں تھے، ہم صرف اپنے شوہروں کی تقلید کر رہے تھے۔‘‘

وہ 'اسلامک اسٹیٹ‘  کی جانب سے دی جانے والی موت کی سزاؤں اور زیادتیوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں سننا چاہتی۔ ولورا خود کو ایک متاثر کے طور پر دیکھتی ہے اور امید کرتی ہےکہ اسے سزائے قید نہیں دی جائے گی۔ وہ ایک مرتبہ پھر معاشرہ کا حصہ بننا چاہتی ہے، ''میں چاہتی ہوں کے لوگ مجھے اسی طرح سے قبول کریں، جیسا کہ میں ہوں، یعنی نقاب میں۔‘‘

لوٹ کے مقتل دیکھوں!

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید