1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’نامعلوم افراد‘ نے گلگت بلتستان کا یہ پُل کیوں جلایا؟

سدرہ سعید
10 اپریل 2021

گلگت بلتستان کی حسین وادیوں میں ایک ضلع دیامر بھی ہے اور چلاس ضلع دیامر کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ چلاس کے مضافات میں چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد ہیں۔ یہاں جنگلات اور بنجر زمینوں کی بہتات ہے، جو یہاں کے لوگوں کی ذاتی ملکیت ہے۔

https://p.dw.com/p/3roSo
Pakistan l Raikot Bridge in Diamir, Gilgit Baltistan abgebrannt
تصویر: privat

فیری میڈوز، نانگاپربت اور بابوسر جیسے معروف سیاحتی مقامات بھی ضلع دیامر میں واقع ہیں، جہاں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ بھاشا ڈیم جیسا میگا پروجیکٹ بھی یہاں پر بن رہا ہے جبکہ ضلع دیامر گلگت بلتستان کا سب سے پسماندہ ضلع ہے۔

ضلع دیامر میں جرگہ داری، تحفظ کمیٹی اور جیسٹرو سسٹم آج بھی موجود ہیں۔ گھاس کاٹنا، اخروٹ، چلغوزہ توڑنا وغیرہ میں اتفاق ہوتا ہے، جس کے لیے ”ذاتو" نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ یہاں کافی خوبصورت اور دلفریب  چراگاہیں بھی ہیں۔ یہاں سادہ اور معصوم  مقینوں کے علاوہ  اردگرد کی وادیوں میں 'نامعلوم افراد‘ بھی رہائش پذیر ہیں لیکن ! خدا جانے ان  'نامعلوم افراد‘ کو اس جگہ سے، یہاں کی ترقی سے اتنی نفرت کیوں ہے؟

زیادہ  دور کی بات نہیں سات اپریل کی شب کو دو وادیوں  گیس بالا اور پائین کو ملانے والا معلق پل نامعلوم افراد نے جلا کر راکھ کر دیا۔ اہل علاقہ محصور ہو گئے، دونوں وادیوں کا رابطہ منقطع  ہو گیا۔

DW Urdu Blogerin Sidra Saeed
سدرہ سعید، بلاگرتصویر: privat

 گلگت بلتستان کے سینئر صحافی شہاب الدین غوری  نے اس واقع کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیقات جاری ہیں، ابھی نہ جلانے والوں کا کچھ پتہ ہے اور نہ جلانے کی وجوہات سامنے آئی ہیں۔ لیکن نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ معلق پل 2010ء میں  دریائے سندھ میں سیلاب کے بعد تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ پہلا واقع نہیں ہے۔ چند ماہ قبل نومبر 2020 کے انتخابات  کے دوران بھی  سیاست کی آڑ میں دیامر کھنر رابطہ پل کو جلا دیا گیا تھا، جس کے ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہو سکے۔

ان واقعات کو سن کر مجھے دیامر سے متعلق گزشتہ چند ہولناک واقعات بھی یاد آ گئے۔ آج سے نو برس قبل تین اپریل 2012ء  کو اس علاقے میں  قتل و غارت کی ہوا چلی۔ مسافر وین  کو روک کے مسافروں کو  قتل کیا جانے لگا اور فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔ اس کے بعد 22 جون 2013 ء کو نانگا پربت بیس کیمپ پر غیر ملکیوں اور ایک پاکستانی سیاح کے قتل کا  واقعہ پیش آنے  کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی جبکہ اس حوالے سے سابق  چیف سیکریٹری منیر احمد بدانی اور آئی جی گلگت بلتستان عثمان ذکریا کا کہنا تھا کہ سیاحوں کے قتل میں 15 ملزمان ملوث ہیں اور ان کی شناخت بھی ہو چکی ہے اور وہ دیامر اور چلاس کے پہاڑی علاقوں میں مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

Pakistan l Raikot Bridge in Diamir, Gilgit Baltistan abgebrannt
تصویر: privat

سکیورٹی فورسز کے کنٹرول کے بعد ایسے واقعات میں سکون آیا پر اب بھی اس علاقے کی فضا میں خوف رہتا ہے۔ یہ علاقہ پسماندگی کے باوجود تعلیم پر توجہ دے رہا ہے۔ والدین کے بچوں کو سکولوں میں بھیجنے کے رجحان میں اضافے کی وجہ سے نئے سکولوں کی تعمیر شروع کی گئی ۔ 

دیامر کی خواتین میں بھی تعلیم کارجحان بڑھتا دیکھ تین اگست 2018ء میں  نامعلوم شر پسند افراد نے بچوں کے 12 اسکولوں میں توڑ پھوڑ کی، بارودی مواد کے دھماکے کیے اور انہیں جلا دیا۔ ان میں چار اسکول لڑکیوں کے تھے۔

اتنی دور  بیٹھے ہم لوگ ان واقعات سے پریشان ہو جاتے ہیں تو سوچیں وہ لوگ، جو اس سب کو آئے روز جھیل رہے ہیں، اس گھٹن میں کیسے جی رہے ہیں؟

ہمارے اردگرد موجود یہ نامعلوم نہ جانےکس مٹی کے بنے ہیں؟ اپنی ذاتی تسکین یا چند پیسوں کے عوض کچھ بھی کر جاتے ہیں۔ چراگاہوں کو مقتل گاہیں بنانے والے دوسروں کو اذیت میں مبتلا کرتے وقت ایک لمحے کو سوچتے بھی نہیں۔ دونوں وادیوں کے درمیان یہ پل دوبارہ بن جائیں گے پر نہ جانے ان نا معلوم شرپسندوں کے مفلوج ذہن کب پسماندگی سے نکلیں گے؟