نئی افغان پارلیمان کا افتتاح
26 جنوری 2011اس موقع پرتقریبات کا اہتمام بڑی حد تک ملک میں پائے جانے والے آئینی بحران کے سبب ماند پڑ گیا ہے۔ صدر کرزئی اس سلسلے میں ایک عرصے سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک طویل پس و پیش کے بعد گزشتہ ستمبر کے انتخابات کے حتمی نتائج سامنے آئے، جن کے مطابق ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد کے ایک چوتھائی حصے کو جعلی قرار دے دیا گیا۔
در حقیقت کرزئی کو اقتدار کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پہلی بار ملکی پارلیمان میں پشتونوں کے گروپ کو مکمل اکثریت حاصل نہیں ہے جبکہ کرزئی اسی نسلی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ حامد کرزئی نے ملکی آئین کے خلاف ایک خصوصی عدالت کی تشکیل بھی کر ڈالی ہے۔ اس کا کام بظاہر مبہم شکایات کی چھان بین کرنا ہے۔ کرزئی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد کسی بھی صورت پارلیمان میں پشتونوں کی اجارہ داری کی بحالی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے، جس کے بارے میں گزشتہ قومی اسمبلی کے سربراہ یونس قانونی کہتے ہیں’’خصوصی عدالت کو دراصل ملکی قوانین کے ماتحت ہونا چاہیے۔ تاہم صدر کرزئی کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ ہر وہ فیصلہ جو وہ خود کرتے ہیں، قانون سے بالا تر ہے۔‘‘
ابھی چند روز قبل ہی کرزئی نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ نئی پارلیمان کا افتتاح ایک ماہ کے لیے ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم مغربی ممالک کی حکومتوں اور اقوام متحدہ کے دباؤ میں آ کر انہوں نے اپنا رُخ بدل دیا۔ مغربی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کابل حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ پارلیمان اور سیاسی نظام کی تشکیل افغانستان کے آئین کے عین مطابق ہونی چاہیے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ حامد کرزئی ایک خصوصی عدالت قائم تو کر سکتے ہیں لیکن انہیں فوری طور پر نئی پارلیمان کا افتتاح کرنا چاہیے اور اسے فعال بنانا چاہیے۔ تاہم نئی پارلیمان کے ایک رکن اسداللہ سعادتی اسے ایک ڈھیلا ڈھالا سمجھوتہ تصور کرتے ہیں۔ اُن کے بقول’’خصوصی عدالت پارلیمان کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ کرزئی پارلیمان کے رکن ہر نو منتخب سیاستدان کو یہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ اُس کے مینڈیٹ کو متنازعہ بنا دیں گے۔ اس طرح کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ نہ ہی پارلیمان اپنا کام پروع کر سکتی ہے۔‘‘
دوسری جانب پشتونوں کی طرف سے حامد کرزئی کو حمایت حاصل ہے۔ شمالی صوبے ننگر ہار سے تعلق رکھنے والی ممبر پارلیمان نورضیا اتمر کا کہنا ہے کہ وہ کرزئی کی تشکیل کردہ خصوصی عدالت کو خوش آمدید کہتی ہیں اور پارلیمان کے دیگر عناصر سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ اس فیصلے کو تسلیم کریں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اب تک گزشتہ پارلیمانی انتخابات سے متعلق سامنے آنے والی شکایات اور بے ضابطگیوں کی شفاف طریقے سے چھان بین نہیں کی گئی ہے۔
افغانستان کے ایک روزنامے سے منسلک صحافی شاہ حُسین مرتضائی کے بقول، ’چند حیران کن تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ چند معروف سابقہ اشتراکی سیاستدانوں کو پارلیمان میں شامل نہیں کیا گیا جبکہ نئی پارلیمان میں متعدد سابقہ مجاہدین لیڈران شامل ہیں۔ ان میں وہ جوان مجاہدین بھی شامل ہیں، جنہوں نے کبھی بھی سابق سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ نہیں لیا تھا۔
افغانستان کی ايسی پارلیمان کا افتتاح جن مصلحتوں اور سمجھوتوں کے تحت ہو رہا ہے، وہ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ نئے افغانستان کا آئینی ڈھانچہ کس قدر کمزور ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک