1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان اور پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی صحیح سمت میں جا رہی ہے: اوباما کا متوقع بیان

16 دسمبر 2010

امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے واشنگٹن کی افغانستان سے متعلق نئی حکمت عملی کے اعلان کے ایک سال بعد آج جمعرات کو اوباما اپنے افغان مشن کی اب تک کی صورتحال کا ایک جائزہ پیش کرنے والے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Qd5m
تصویر: AP

وائٹ ہاؤس کی طرف سے پیشگی طور پر ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ اوباما افغانستان میں امریکی قیادت میں جاری غیر ملکی فوج کی جنگ کو نہایت کامیاب قرار دیں گے اور یہ کہیں گے کہ افغانستان میں طالبان کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ تاہم امریکی صدر اس امرکا اعتراف بھی کریں گے کہ افغانستان متعینہ فوجیوں کو اب بھی گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔گزشتہ سال دسمبر میں صدر اوباما نے اپنے مزید 30 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 2011ء جولائی سے افغانستان سے فوجی انخلاء کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور 2014ء تک ہندو کُش میں سکیورٹی کی صورتحال کی مکمل ذمہ داری افغان فورسز کو سونپ دی جائے گی۔

Afghanistan USA Präsident Barack Obama in Bagram
اوباما افغانستان کے حالیہ اچانک دورے کے دوران بگرام آئیر بیس میںتصویر: AP

اوباما دراصل افغانستان میں گزشتہ دو ماہ کے دوران ہونے والے امریکی فوجی اور سول آپریشنز کے جائزے کی روشنی میں طالبان کے خلاف 9 سالہ جنگ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی افغانستان پالیسی کے ناقدین کے اعتراضات کے باوجود امریکی حکمت عملی میں کسی قسم کی تبدیلی کی امید نہیں کی جانی چاہئے۔ ماہرین افغانستان میں ملک گیر سطح پر پائی جانے والی بد عنوانیوں اور سیاسی عدم استحکام کو ہندو کُش میں امریکی مفادات کی راہ کی بڑی رکاوٹ قرار دے رہے ہیں۔

ادھر اندرون خانہ بھی اوباما کو اپنی افغانستان پالیسی کے ضمن میں خاصی مخالفت کا سامنا ہے۔ امریکی نیوز چینل ABC کی جانب سے کروائے گئے ایک سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ 60 فیصد امریکی باشندوں کی رائے میں افغانستان کی جنگ امریکہ کے لئے فضُول ہے۔ جبکہ ایسے امریکی باشندوں کی شرح محض 34 فیصد ہے، جو افغانستان کی جنگ پر آنے والے اخراجات کا موازنہ اُس سے حاصل ہونے والے فوائد سے کرتے ہوئے اسے ضروری قرار دیتے ہیں۔

NO FLASH Obama überraschend in Afghanistan
2008 میں بھی اوباما نے افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تھاتصویر: picture alliance / dpa

وائٹ ہاؤس کے ایک تر جمان رابرٹ گِبز نے صدر اوباما کی طرف سے جمعرات کو افغانستان پالیسی سے متعلق پیش کئے جانے والے جائزے کے حوالے سے کہا، ’میں ایمانداری سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اوباما کے بیانات میں کوئی تعجب خیز یا نئی بات شامل ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘۔ گِبز نے اُن چند نکات کو دہرایا، جو اوباما کی تقریر کا لازمی جُزو ہوں گے۔ مثلاً یہ کہ ’افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کو کم کرنے میں واضح کامیابی ہوئی ہے، انسداد دہشت گردی کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں القاعدہ کے سینئر لیڈروں کو بہت حد تک پسپا کر دیا گیا ہے اور گزشتہ 18 ماہ کے دوران پاکستان کی طرف سے تعاون میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘۔ رابرٹ گبز نے بھی نشاندہی کی ہے کہ اوباما تمام تر کامیابیاں گنوانے کے ساتھ ساتھ ان حیلنجوں کا بھی جائزہ پیش کریں گے، جن کا ہندو کُش میں امریکہ کو ہنوز سامنا ہے ۔

دریں اثناء امریکی انتظامیہ نے گزشتہ روز خفیہ سروس کی اُن دو رپورٹوں کو دبا دیا، جن میں افغانستان جنگ کی صورتحال کی ایک ایسی تصوپر پیش کی گئی ہے، جو زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ انٹیلی جینس کی یہ رپورٹیں لاس اینجلیس ٹائمز اور نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوئی ہیں۔ ان کا متن واشنگٹن انتظامیہ کی رپورٹ سے کہیں مختلف ہے۔ تاہم امریکی خفیہ اداروں اور امریکی وزارت دفاع کے اہلکاروں کے مابین اس بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں