1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میرے لمبے بال خون سے بھر چکے تھے‘: ’آئی ایم ملالہ‘

امتیاز احمد8 اکتوبر 2013

لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوشاں ملالہ یوسف زئی کی خود نوشت آج منظر عام پر آ رہی ہے۔ اس کتاب میں نوبل امن انعام کی امیدوار ملالہ یوسف زئی اُن دہشت زدہ لمحات کو بیان کرتی ہیں، جب ان پر حملہ کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/19vzG
تصویر: Andrew Cowie/AFP/Getty Images

ملالہ کی خود نوشت کا نام ’آئی ایم ملالہ‘ رکھا گیا ہے اور اس کی شریک مصنفہ برطانوی خاتون صحافی کرسٹینا لیمب ہیں۔ اس کتاب میں ملالہ مسلح طالبان کی اس دہشت زدہ کارروائی کے بارے میں بیان کرتی ہیں، جب نو اکتوبر سن 2012ء کو انہیں اسکول کی بس میں سر میں گولہ ماری گئی۔ کتاب میں ملالہ لکھتی ہیں، ’’میری دوست کہتی ہیں کہ اس نے یکے بعد دیگرے تین فائر کیے۔ جس وقت ہم ہسپتال میں تھے، اس وقت تک میرے لمبے بال اور منیبہ کی جھولی خون سے بھر چکی تھی۔‘‘

اس کتاب میں وہ سوات کی اُس زندگی کے بارے میں بھی بیان کرتی ہیں، جو انہوں نے طالبان کی ظالمانہ حکمرانی میں گزاری۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ پاکستانی سیاست میں حصہ لیں گی۔ اس وقت برطانوی شہر برمنگھم میں مقیم ملالہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ انہیں اپنا آبائی گھر بہت یاد آتا ہے اور برطانیہ میں ایڈجسٹ ہونے میں انہیں کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

Die pakistianische Kinderrechtsaktivistin Malala Yousafzai
تصویر: Getty Images/Afp/Quique Garcia

کلاس میں ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش میں رہنے والی ملالہ کینیڈین پاپ سنگر جسٹِن بیبر کی پرستار بھی ہیں اور ویمپائر رومانوی ناول ’ ٹویلائٹ‘ کی سیریز بھی پسند کرتی ہیں۔

ملالہ اپنی کتاب میں ان دھمکمیوں کا بھی ذکر کرتی ہیں، جو انہیں قتل کی کوشش سے پہلے دی گئی تھیں۔ وہ لکھتی ہیں، ’’میں رات کو اس وقت تک جاگتی رہتی تھی، جب تک سبھی لوگ سو نہیں جاتے تھے۔ پھر میں گھر کی ہر کھڑکی اور دروازے کو چیک کرتی تھی۔‘‘

وہ مزید لکھتی ہیں، ’’مجھے نہیں پتا کیوں، لیکن مجھے یہ سُن کر پریشانی نہیں ہوتی تھی کہ مجھے نشانہ بنایا جائے گا۔ مجھے یہ علم تھا کہ ہر کسی نے کبھی نہ کبھی مرنا ہے۔ تو میں نے وہ سب کچھ کیا، جو میں کرنا چاہتی تھی۔‘‘

کتاب میں ان عوامی سزاؤں کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جو طالبان کی طرف سے دی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ ٹیلی وژن، موسیقی اور ڈانس پر لگائی جانے والی پابندیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں ملالہ اپنے والد ضیاالدین یوسف زئی کی تعریف کرتے ہوئے ان مشکلات کا بھی تذکرہ کرتی ہیں، جن کا ان کے والد کو اپنا اسکول کھولنے اور طالبان کے خلاف بولنے پر سامنا کرنا پڑا۔

کتاب میں مختصر طور پر اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے والد اپنی جوانی میں افغانستان میں سویت یونین افواج کے خلاف جہاد کے لیے جانا چاہتے تھے۔

ملالہ اپنی کتاب میں مقتول پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ ان کے لیے ’ہیرو‘ کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ کسی نہ کسی دن وطن واپس ضرور جائیں گی اور سیاست میں حصہ لیں گی۔

وہ لکھتی ہیں، ’’مجھے نئی زندگی کسی وجہ سے ملی ہے۔ میں اپنی زندگی لوگوں کی مدد کے لیے صرف کروں گی۔‘‘

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ملالہ کو نوبل امن انعام کے لیے بھی فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس انعام کا اعلان آئندہ جمعے کے روز ہوگا۔