1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میری قوم کو ہنگامی بنیادوں پر دو ٹافیاں درکار ہیں!

19 اپریل 2021

احتجاج کا موضوع قوموں کی عظمت اور شعوری ترقی کا طاقتور اشارہ ہوتا ہے۔ آئیے نفسیات کی بوجھل ترکیبات کو استعمال کرنے سے پہلے اس مقدمے کی بنیادوں کو سادہ مثالوں سے کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔

https://p.dw.com/p/3sCtF
Waqar Ahmad
تصویر: privat

تیسری دنیا کے ممالک میں مہنگائی ایک ایسا موضوع ہے، جو سب سے زیادہ زیر بحث رہتا ہے۔ آبادی کی ایک کثیر تعداد کے خط غربت سے نچیے رہنے کی وجہ سے اس موضوع کےحوالے سے سب سے زیادہ بحث کی جاتی ہے، اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے لیے ہمیشہ ہی کہنے کو کچھ نہ کچھ رہتا ہے۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا بھی اس موضوع کو سب سے زیادہ جگہ دیتے ہیں اور جس دن خبروں کا قحط ہو تو تین چار رپورٹرز کو سبزی منڈیوں میں کھڑا کر کے نیوز بلیٹن کا پیٹ بھر لیتے ہیں۔

آپ تیسری دنیا میں کسی ملک کے کسی بھی شہر کی گلی میں تھڑے پر بیٹھے شہری سے پوچھیےکہ آپ کے ملک کے بڑے مسائل کون سے ہیں تو مہنگائی اس میں سر فہرست ہو گی۔ مہنگائی کے اس دعویٰ کے حوالے سے آپ مزید استفسارکریں گے تو جواب آپ کو وہی عمومی بیانیہ ملے گا، جس کا شور ابلاغ کے اداروں میں ہو رہا ہو گا۔ مثلا ان دنوں پاکستان میں اگر آپ ذیابیطس کے مریض سے بھی مہنگائی کےحوالے سے وضاحت طلب کریں گے تو آپ کو بتائے گا کہ کیسے غریب کا جینا دو بھر کر دیا اس حکومت نے اور کیسے چینی کی قیمت آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔

کیا تیسری دنیا میں واقعی سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے؟ کیا ہم مہنگائی کی تکرار سے کچھ فکری مغالطوں کا شکار تو نہیں ہو رہے؟ تیسری دنیا میں ایک واضح مسئلہ تو ریاست میں اختیارات کی تقسیم کا ہے۔ چلیے ہو سکتا ہے کہ فرد کم تعلیم کی وجہ سے اختیارات کی تقسیم کو معیشیت کے ساتھ نتھی کرنے کی ذہنی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ یا کسی ملک میں طاقتور طبقوں کے خوف کی وجہ سے زبان بندی میں ہی عافیت تلاش کرتا ہو لیکن دیگر بہت سے مسائل کو وہ اپنے مسائل کیوں نہیں سمجھتا؟

پاکستان میں چینی اگر دس روپے کلو مہنگی ہوتی ہے تو ٹی وی پروگرامز نیوز بلیٹنز اور سیاستدانوں کے بیانات چینی کے گرد گھومنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا آپ نے آج تک دیکھا کہ ملک میں کبھی اس بات پر احتجاج ہوا ہو کہ ہمارے دو کروڑ سے زائد بچے سرے سے سکول ہی نہیں جاتے اور ریاست نے بنیادی تعلیم بچوں کا حق تسلیم کیا ہوا ہے۔ ریاست ہمارے بچوں کو یہ بنیادی حق کیوں نہیں دے رہی؟

بچوں کے اغوا میں ملوث مافیا بچوں کو اپاہج بنا کر بھیک منگواتا ہے کیا کبھی اس مافیا کے حوالے سے مباحثوں کی گرد اٹھتی دیکھی گئی ہے؟ کیا مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اس موضوع کو لے کر کسی طرح کی سراسیمگی نوٹ کی  گئی ہے؟

ہر سال پاکستان میں سینکڑوں بچوں اور بچیوں کے ریپ ہوتے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے سنا کہ پاکستان میں کسی شہر کی سڑک بچوں اور بچیوں کے ریپ پر احتجاج کی وجہ سے بند ہو؟ (این جی اوز کے 'منعقد کردہ احتجاجوں' کی میں ستائش کرتا ہوں لیکن ایسے احتجاجوں کو 'قوم کااحتجاج' یا نامیاتی احتجاج کہنے سے قاصر ہوں)

خواتین کے قتل آبروریزی اور چہرے پر تیزاب پھینکے جانے والے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔کیا آپ نے ان جرائم پر سڑکوں پر ٹائر جلتے دیکھے؟

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جو شدید قلت آب کا شکار ہیں۔ دو ہزار چالیس میں پاکستان کی آبادی تقریبا دوگنا ہو چکی ہو گی۔ پانی کے قدرتی ذرائع تو یہی ہیں تو اندازہ لگائیے کہ آج سے دس برس بعد پاکستان میں پانی کے حوالے سے کیا صورتحال ہو گی؟ لیکن کیونکہ سماج اس پر بات نہیں کر رہا اس لیے فرد یہ سمجھتا ہے اگر وہ اس پر شور مچائے بھی تو بھی شاید یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ سماجی مطابقت اختیار کرنے اور اس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے وہ بھی چینی اور ٹماٹر کے مہنگا ہونے کے حوالے سے اپنی آواز سماج کی چیخ و پکار سے مدغم کرنے کی کوشش کرے گا۔

چینی یا ٹماٹر مہنگے ہونے کے بہت سارے متبادل ہو سکتے ہیں لیکن کیا متذکرہ بالا جرائم کا کچھ متبادل ہے؟ فرض کیجئے چینی مہنگی ہو گئی ہے تو پہلی بات تو یہ ہے دیگر سینکڑوں اشیائے خوردونوش، ٹرانسپورٹ کے کرایوں، سکول کی فیسوں میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیں تو چینی اور ٹماٹر پر اس قدر شور کیوں مچتا ہے؟ چینی کے مہنگے ہونے کے پیچھے بھی کوئی مافیا ہو گا لیکن کیا بچوں کے اغوا انہیں بنیادی تعلیم کے حق سے محروم کرنے والے مافیاز پر اس قدر چیخ و پکار ہوتی ہے؟ مجھے اگر بچوں کے ریپ اور چینی کی بڑھتی قیمت میں سے کسی پرآواز اٹھانی ہو تو میرا احتجاج کا موضوع بہت واضح ہے۔ مجھے اگر کہا جائے کہ زندگی بھر تمہیں چینی کھانے کو نہیں ملے گی تب بھی بغیر ایک لمحہ توقف کیے میرے احتجاج کا موضوع بچوں اور بچیوں کا ریپ ہو گا۔

چینی کی انسانی جسم کو جتنی مقدار چاہیے ہوتی ہے وہ روزمرہ کی خوراک میں ویسے ہی موجود ہوتی ہے۔ آپ بہت ہی چینی کے شیدائی ہیں تو کئی متبادل بھی مل سکتے ہیں۔ ٹماٹر کا متبادل بھی ہو سکتا ہے۔ سبزیوں کے مہنگا ہونے پر ایک مثبت احتجاج کچن گارڈننگ کی شکل میں موجود ہے۔ سبزیوں کے مہنگا سستا ہونے کا طلب و رسد سے براہ راست تعلق ہے کسی بے موسمی سبزی کے مہنگا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ قیامت تک مہنگی رہے گی۔ اسی ملک میں ہم برسوں سے ٹماٹر کے مہنگا ہونے کا واویلا بھی سنتے آئے ہیں کہ ٹماٹر دو سو روپے کلو ہو گئے لیکن کیا کسی نے یہ بتایا کہ سال میں پندرہ یا بیس دن ایسی صورتحال رہتی ہے لیکن سال کے کثیر دنوں میں یہی ٹماٹر بیس سے چالیس روپے کلو فروخت ہوتا رہتا ہے۔

اب آئیے نفسیات کی روشنی میں اس معاملہ کا تجزیہ کرتے ہیں۔

سماجی مطابقت کے دباو کے نتیجہ میں کیے جانے والے فیصلے نفسیات کا ایک دلچسپ موضوع ہے۔ آپ ایک سادہ سا تجربہ کریں۔ ایک کاغذ پر دو گول دائرے بنائیں۔ ایک گول دائرہ چھوٹا بنائیں اور اس کو الف نام دے دیں۔ دوسرا گول دائرہ بڑا بنائیں اور اس کوب نام دے دیں۔ دس افراد کو بٹھائیں اور اس کاغذ کی ایک ایک کاپی سب کو تھما دیں۔ نو آدمیوں کو اس تجربے کا علم ہے اور وہ آپ کے 'اپنے لوگ' ہیں۔ اب آپ سوال پوچھیں کہ کون سا دائرہ بڑا ہے ۔ اپنے لوگوں کو آپ نے بتانا کہ ان سب نے غلط جواب دینا ہے یعنی الف دائرہ کو بڑا کہنا ہے گو کہ وہ چھوٹا ہے۔ آپ دیکھیں گے سماجی مطابقت کی خاطر دسواں آدمی بھی غلط جواب دے گا حالانکہ وہ واضح طور پر جانتا ہے کہ الف نہیں بلکہ ب دائرہ بڑا ہے۔ اس طرز کے رویے آپ بچوں کے کلاس رومز یا امتحانوں کے دوران بھی نوٹ کر سکتے ہیں کہ کیسے اگر زیادہ بچے غلط جواب دے رہے ہوں تو باقی بچے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ جواب غلط ہے  ان کی تقلید شروع کر دیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب اتنے بچے غلط کو درست کہہ رہے ہیں تو پھر یہی درست ہو گا۔

آپ نے سوشل میڈیا پر ایک تجربہ دیکھا ہو گا کہ کیسے ایک اینکر بازاروں میں مختلف لوگوں سے سوال کرتا ہے کہ ٹک ٹاک مہنگی ہو گئی ہے، اس پر آپ کیا کہتے ہیں تو اس پر لوگوں نے سخت  ردعمل دیا۔ حکومت کو گالیاں دیں کہ یہ حکومت غریبوں کو مار کے دم لے گی، غریب کے لیے پہلے ہی سانس لینا دو بھر ہے اور اس پر اب ٹک ٹاک بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ اللہ کا عذاب نازل ہو اس حکومت پر وغیرہ وغیرہ۔

ہم کسی گروہ کو قوم کا نام اس وقت دیتے ہیں، جب ان کا اجتماعی شعور گروہ کی منفعت کو ذاتی منفعت گردانے۔ فرائیڈ کی زبان میں کسی قوم کا فوق انا اگر ترقی کرتا جائے اور فرد کی فوق انا اس سے ہم آہنگ ہو جائے تو فرد کی انا اسی وقت تسکین پاتی ہے، جب جبلی خواہش (اڈ) اور قوم کی مجموعی فوق انا کے مابین توازن آ جاتا ہے۔ دوسری صورت میں وہ اگر ایک ایسا گروہ ہے، جو اجتماعیت سے ابھی کوسوں دور ہے تو اس کی جنگ ذاتی فوق انا اور خواہش میں توازن تک محدود ہو جاتی ہے۔

بچوں اور بچیوں کے ریپ پر احتجاج کے لیے فرد اس لیے کھڑا نہیں ہو رہا کہ اس کے نزدیک زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس کے بچے محفوظ رہیں گے۔ ہم دلی کے فقدان کی وجہ سے وہ یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ بچوں اور بچیوں کے ریپ پر احتجاج کے لیے وہ کیوں اور کیسے وقت نکالے۔ ہاں چینی اگر دس روپے مہنگی ہو جائے تو اس کے لیے وہ دو وجوہات کی بنا پر احتجاج کرتا ہوا نظر آئے گا۔ ایک کہ چینی سے وہ براہ راست متاثر ہوتا ہے چاہے پانچ یا دس روپے سے ہی متاثر ہو رہا ہو لیکن متاثر وہ ہو رہا ہے۔ ب کہ سماجی مطابقت بھی اسے اسی موضوع پر احتجاج پر اکسا رہی ہے۔ چینی کے مہنگا ہونے پر احتجاج کر کے وہ سماجی مطابقت حاصل کر لیتا ہے چاہے ذیابیطس کا مریض ہی کیوں نہ ہو اور چینی کے مہنگا ہونے سے اس کے دور دور تک متاثر ہونے اندیشہ بھی نہ ہو۔

تیسری ایک اور اہم وجہ جذبات پر قابو نہ پانے کی مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے لمحہ موجود میں زندہ رہنے کی عادت بھی ہے۔ مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنا ذہانت کی علامت ہے۔ انسان کی یاداشت اسے ماضی اور مستقبل کے حوالے سے ایک خلاصہ یا تجریدیت دیتی ہے۔ ماضی اور حال کا تجزیہ کر کے وہ مستقبل کو محفوظ بنانے کی تگ و دوکرتا ہے۔ یہ تگ و دو ذہانت کہلائے گی اگر وہ کوئی بہت زیادہ ذہنی دباو کا باعث نہیں بن رہی۔ یہاں نفسیات کے ایک تجربے کا ذکر کرنا چاہوں گا، جس میں بچوں کو کہا گیا کہ اگر آپ ابھی ٹافیاں لینا چاہیں گے تو آپ کو دو ملیں گیں اور اگر آپ ایک گھنٹہ انتظار کریں گے یعنی اپنے لمحہ موجود کے جذبات پر قابو رکھیں گے تو آپ کو پانچ ٹافیاں ملیں گیں۔ ماہرین نفسیات نے اس تجربے کے بعد ان بچوں پر اگلے پندرہ بیس سال مطالعہ جاری رکھا۔ حاصل مطالعہ یہ تھا کہ جن بچوں نے انتظار کیا تھا وہ زندگی کے آنے والے مرحلوں میں کامیاب رہے جبکہ فوری دو ٹافیاں حاصل کرنے والے بچے آنے والی زندگی کے مراحل میں مشکلات کا شکار ہوئے۔

ہماری قوم کو اس وقت چینی اور ٹماٹر کے مہنگا ہونے کا قلق ہے لیکن قوم کا اجتماعی شعور یہ تجزیہ کرنے سے قاصر ہے کہ اگر دو کروڑ سے زائد بچہ لوگ سکول نہیں جا رہا تو بڑے ہو کر جب وہ اس سماج کا حصہ بنے گا تو ان کی عقلی صلاحیت کہاں کھڑی ہو گی؟ اگر کسی فرد کا بچہ سکول جا بھی رہا ہے توبھی اس کے لیے کس قدر لمحہ فکر ہونا چاہیے کہ میں نے آج اگر دوسرے بچوں کی تعلیم کے لیے آواز نہ اٹھائی تو میرا تعلیم یافتہ بچے کی زندگی کی کیا ضمانت ہے، جس نے آنے والے اس معاشرے کے 'وحشی افراد' کے درمیان زندگی بسر کرنی ہے، جنہوں نے سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا ہو گا۔

آج اگر میں نے پانی کے لیے آواز نہ اٹھائی تو میری آنے والی نسلیں کیسے پانی کی بوندوں کے لیے ایک دوسرے کا خون بہائیں گی۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کے حوالے سے میری قوم کیوں تمام اقوام عالم سے پیچھے ہے۔

چینی اور ٹماٹر کی قیمتیں گئیں جہنم میں مجھے تو یہ بتایا جائے کہ میری قوم میں چھ ماہ کی بچی سے لے کر سینکڑوں بچوں بچیوں کا ریپ ہو رہا ہے یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اقوام عالم نے اس کا کیا حل نکالا ہے اور ہم اس حل سے کیوں اس قدر دوری پر کھڑے ہیں؟

لیکن یہ گروہ ایسا نہیں کرےگا،

اس گروہ کو فی الحال دو ٹافیاں فوری درکار ہیں اور وہ بھی ہنگامی بنیادوں پر!