1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میراثی اور رنگ برنگی دنیا

سعدیہ احمد
27 جولائی 2020

میں نے ایک بات آپ کو کبھی نہیں بتائی، آج بتا رہی ہوں، کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے بچپن سے گانے کا بہت شوق ہے۔ ارے بھئی، خاندان کی ڈھولکیوں پر بے ہنگم تال کے ساتھ تالیاں پیٹنے کا نہیں بلکہ سچی مچی گانے کا شوق ہے۔

https://p.dw.com/p/3fx9C
DW Urdu Blogerin Sadia Ahmed
تصویر: privat

 بھئی، ہم تو قوال ہوں گے، ہمنوا کیوں بنیں؟ اسکول میں میوزک کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ ہر بچہ تان سین بن کر نکلتا تھا۔ بس بچوں کا دھیان بٹا رہتا تھا اور کلاس ٹیچروں کو ایک فری پیریڈ مل جاتا تھا۔

میوزک کے استاد سر نوید کو ہمارا گانا کچھ خاص پسند نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے تال اور سر دونوں ہی ندارد ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہمیش شوق ضرور تھا لیکن بے سرا پن ترقی کی راہ میں حائل ہوا۔

سر نوید نابینا تھے لیکن دل کی نظر خوب تیز تھی۔ قدموں کی چاپ سے پہچان جاتے کہ کون آیا ہے۔ کیسٹوں کا زمانہ تھا۔ انگلی کی پوروں سے کیسٹوں کو چھوتے اور بتا دیتے کہ یہ کس گلوکار کی البم ہے۔ سنا ہے سر نوید شروع سے نابینا نہیں تھے۔ ایک حادثے کے بعد ایسا ہوا۔ خیر آنکھوں کے جانے کی دیر تھی کہ دل کھل گیا۔ اب انہیں سب پہلے سے بھی اچھی طرح دکھائی دینے لگا تھا۔ باقی تمام آلات موسیقی تو بجاتے ہی تھے لیکن بانسری پر خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ ہم بچے تھے لیکن سر نوید کی بانسری کا درد محسوس کر لیتے تھے۔ بانسری بجاتے تھے تو یوں لگتا تھا کہ دور دیس کی پریاں گروہ در گروہ ان کی بلائیں لینے کو آنے لگی ہیں۔

وہ زیادہ تر سفید شلوار قمیض میں ملبوس ہوتے تھے۔ گرمیوں میں کلف لگا اور سردیوں میں اسی پر موٹا سیاہ سویٹر۔ ان کے بال بال کالے سیاہ اور سیدھے تھے۔ پھر بھی وہ انہیں ایسے سلیقے سے جماتے تھے کہ چہرے پر نہیں آتے تھے۔ سر نوید کی عزت صرف اسکول کے بچے ہی نہیں بلکہ پورا اسٹاف اور والدین بھی کرتے تھے۔

یہ ہمارا ایک حقیقی آرٹسٹ سے پہلا تعارف تھا، آج بھی ہے۔

آرٹ بھی انوکھی چیز ہے۔ اس کے بغیر زندگی بسر تو ہو سکتی ہے لیکن جی نہیں جا سکتی۔ جب آپ کا دل خوشی سے جھوم رہا ہو تو جی چاہتا ہے کہ خوب گانے سنیں، ناچیں۔ جب دل بھر آئے تو ان گانوں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ ہنسنے کا دل چاہے تو فورا ٹی وی پر کوئی مزاحیہ پروگرام دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

مہدی حسن جن کا تھا، وہ لے گئے

جمشید میموریل ہال سے خوب صورت یادوں کی دستک

گھر اس وقت تک مکان ہی رہتا ہے جب تک اس کی دیواروں کو رنگوں سے سجا نہیں دیا جاتا۔ محبت تب تک نہیں کی جا سکتی جب تک محبوب کو خوشبو میں بسے شعر نہ لکھ کر بھیجے جائیں۔ شاعری کے بغیر دنیا سونا آنگن لگتی ہے۔ گرمیوں کی دوپہروں میں کونے میں چھپ کر رومانوی ناول نہ پڑھے جائیں تو یہ جینا کس کام کا ہوا؟

کہتے ہیں تخلیق سکھائی نہیں جا سکتی۔ یہ یا تو ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ اندر سے کسی چشمے کی طرح پھوٹتی ہے یا زمین بنجر ہی رہتی ہے۔  مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری زندگی میں آرٹ کی مسلمہ حیثیت کے باوجود ہم اس کا ادراک نہیں کرتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کی خوبصورتی اور بقا اس سے ہے لیکن پھر بھی وہ آرٹسٹ، جو دن رات لگا کر اپنی تخلیق کے ذریعے ہمیں یہ خوشی بخشتا ہے، اس کو اپنے برابر نہیں سمجھتے۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ سب لوگ جو اپنے میں ایک مکمل جہاں کیے بیٹھے ہیں، نکمے ہیں، ناکارہ ہیں، کسی قابل نہیں ہے۔

گانا بجانا یا ایکٹنگ کرنے والے آرٹسٹ کو بڑی ہی بے رحمی سے طرح طرح کے نام دے جاتے ہیں۔ میراثی کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ان سے شادیاں کرنا تو درکنار ملنا جلنا تک نہیں رکھنا چاہتے۔ کرایے پر مکان تک نہیں دیتے۔ ان کا ایک مخصوص امیج بنا لیا جاتا ہے۔ اگر کسی بچے میں فنون لطیفہ کا ٹیلنٹ ہو بھی تو بات دبا دی جاتی ہے۔ اسے کوئی ایسا شعبہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو 'قابل قبول ' ہو، بھلے وہ ساری عمر ایک اوسط درجے کا پروفیشنل بن کر زندگی گزار دے۔

یہ آرٹسٹ ہی ہیں جو نامساعد حالات اور حوصلہ شکنی کے باوجود ملک کی پہچان بنتے ہیں لیکن ہمارے ہاں پھر بھی 'میراثی‘ کہلائے جاتے ہیں۔ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو میراثی میراث کا رکھوالا ہوتا ہے۔ یعنی کسی بھی قوم کے ورثے کو آگے لے کر چلنے والا۔ یہ آرٹسٹ بولیوں اور نغموں میں اپنی زبان زندہ نہ رکھتے تو نجانے ہم کہاں ہوتے؟

کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ سر نوید کتنے خوش قسمت تھے۔ صرف آرٹ ہی نہیں کیا، عزت بھی کمائی، سب کا پیار حاصل کیا۔ شاید اگر وہ بھی مشہور ہوتے، آنکھوں والے ہوتے تو سب کی آنکھوں کا تارا نہ ہوتے۔ شاید ان کی مقبولیت سے بھی لوگ جلتے اور انہیں میراثی ہونے کا طعنہ دیتے۔ کبھی کبھی کبھی یہ بھی سوچتی ہوں کہ اگر کل کو سب آرٹسٹ ہم سے تنگ آ کر اپنا آرٹ ہم سے چھپانے لگے تو یہ دنیا کیا ہو گی؟ بے رنگ اور بے ہنگم زندگی محض گزاری جائے گی، اسے جیا نہیں جا سکے گا۔ خدانخواستہ واقعی ایسا ہو گیا تو ہم، تو کہیں کے نہ رہیں گے، خدا کی قسم!