1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہنگائی پر میڈیا کی خاموشی، کیا مفادات نے زبان بند کر دی؟

عبدالستار، اسلام آباد
6 جنوری 2023

پاکستان میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے لیکن کئی حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستانی میڈیا اور نامور صحافی اب اُس شدت سے مہنگائی کے مسئلے کو نہیں اٹھا رہے، جس طرح یہ مسئلہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران اٹھایا جاتا تھا۔

https://p.dw.com/p/4LpYq
Pakistans Importe bedroht, da die Devisenreserven ein Achtjahrestief erreichten
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP

واضح رہے کہ موجودہ حکومت کے ابتدائی آٹھ مہینوں کے دوران پٹرول، آٹا، گھی، دال، گوشت اور سبزیوں سمیت کئی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں، جو کمی کی ہے، وہ عوامی میں رائے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی موجودہ حکومت نے تین ایئرپورٹس کو بھی آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے کئی ملازمین کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے جبکہ حکومت نجکاری کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہونے کا ارادہ رکھتی ہے، جس سے ہزاروں مزدوروں کا روزگار متاثر ہو سکتا ہے۔

موجودہ حکومت پر یہ بھی تنقید آتی ہے کہ اس نے عوام پر کی کئی طرح کے ٹیکسز لگا دیے ہیں، جن کی وجہ سے نہ صرف غریب آدمی مشکلات کا شکار ہے بلکہ اب متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے بھی گزارا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

’میڈیا بک چکا ہے‘

نیشنل پارٹی پنجاب کے سینیئر نائب صدر ملک نذیر اعوان کا کہنا ہے کہ میڈیا کا کام عوامی مسائل کو اجاگر کرنا ہوتا ہے لیکن یہاں لگتا ہے کہ ''میڈیا بک چکا‘‘ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے بات کر رہی ہیں لیکن میڈیا اس مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوا ہے۔ جب دو بڑے میڈیا گروپس کے لوگ خود حکومت میں شامل ہو جائیں گے تو حکومت پر پھر میڈیا تنیقد کیسے کرے گا اور عوام کو کیسے پتا چلے گا کہ میڈیا ان کے مسائل اجاگر کر رہا ہے۔‘‘

پاکستان، خوف کا ماحول اور ٹکڑوں میں بٹی صحافت

موجودہ حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ یہ ایک طرف عوام کو سادگی کا درس دے رہی ہے اور دوسری طرف کابینہ کے حجم میں مستقل اضافہ کر رہی ہے لیکن میڈیا کی مبینہ طور پر اس حکومت سے قربت ہے تو وہ حکومت کی ''عوام دشمن پالیسیوں‘‘ پر تنقید نہیں کر رہا ہے۔

 یہ تنقید صرف سیاست دانوں کی ہی طرف سے نہیں آ رہی بلکہ خود صحافتی برادری میں بھی کئی افراد اس کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ شاہد کا کہنا ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ نے عوامی مسائل پر بالکل خاموشی اختیار کر لی ہے۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں عام آدمی کے لئے بہت ساری معاشی مشکلات پیدا ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود مین سٹریم میڈیا اس پر توجہ نہیں دے رہا ہے۔ چھ گھنٹے سے زیادہ مشتمل ٹاک شوز عموماﹰ ایسی باتیں کرتے ہیں، جن کا عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا جبکہ خبروں میں بھی مہنگائی کو بہت کم کوریج ملتی ہے‘‘۔

پتلی حالت اور ننگی کمر والا پاکستان کا چوتھا ستون

فوزیہ شاہد کا خیال ہے کہ یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کچھ نامور صحافیوں کو نوازا جاتا ہے اور وہ مسائل پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، ''ماضی میں صدیق الفاروق اور عرفان صدیقی سمیت کئی صحافیوں نے سیاسی طور پر کسی ایک جماعت کی حمایت کی، جس سے میڈیا پر منفی اثر پڑا اور عوام میں اس کا تاثر اچھا نہیں گیا۔‘‘

میڈیا مہنگائی کو کوریج دے رہا ہے

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ میڈیا مہنگائی کے حوالے سے کوریج نہیں کر رہا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں یہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ میڈیا اس مسئلہ پر توجہ نہیں دے رہا۔ اس وقت ٹی وی کا مشہور ترین پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ ہے اور اس نے اسحاق ڈار سے لے کر مفتاح اسماعیل اور دوسرے معاشی ماہرین کو بلا کر معاشی امور اور مہنگائی پر بہت بات چیت کی ہے۔ شاید پی ٹی آئی کے رہنما اس کو دیکھتے نہیں۔‘‘

میڈیا کے خلاف تاثر

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں بہت سارے صحافی مختلف اوقات میں حکومت وقت کے ساتھ مل جاتے ہیں اور سرکاری عہدہ بھی قبول کر لیتے ہیں، جس کی وجہ عوام میں اس سارے عمل کا بہت منفی تاثر جاتا ہے اور اس کی وجہ سے حکومتوں کی طرف میڈیا کا رویہ بھی متاثر ہوتا ہے۔

 فوزیہ شاہد کا کہنا ہے کہ اس طرح کے عمل سے صحافت اور صحافتی برادری کو بہت نقصان ہوتا ہے، ''میرے خیال میں کسی بھی صحافی کو حکومتی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جب وہ حکومتی عہدہ قبول کرتا ہے اور میڈیا کی طرف سے حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید نہیں ہوتی، تو پھر یہی سمجھا جاتا ہے کہ کیوں کہ صحافیوں نے حکومت میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اس لیے وہ سودے بازی کر بیٹھے ہیں۔ صحافیوں کو صرف صحافت کرنا چاہیے اور حکومتی ایوانوں سے دور رہنا چاہیے۔‘‘

صحافیوں میں تقسیم اور مہنگائی کی کوریج

یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ چینلز، جو پی ٹی آئی کے حمایتی سمجھے جاتے ہیں، وہ مہنگائی کے مسئلے کو اٹھا رہے ہیں جب کہ کئی دوسرے میڈیا گروپس اس مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ کچھ حلقوں کی طرف سے میڈیا کی کوریج پر اس لئے بھی انگلی اٹھائی جا رہی ہیں کیونکہ پاکستانی میڈیا میں تقسیم نظر آتی ہے۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیونکہ پاکستانی میڈیا بظاہر سیاسی بنیادوں پر تقسیم نظر آتا ہے۔ اس لیے کچھ میڈیا گروپس نے مہنگائی کے مسئلے کو بہت شدومد کے ساتھ اٹھایا ہے جبکہ کچھ نے اس کو اتنی شدت کے ساتھ نہیں اٹھایا۔‘‘

حکومت کا موقف

حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام اس بات کو غلط قرار دیتی ہے کہ حکومت نے میڈیا کو خرید لیا ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما محمد جلال الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے کسی کو بھی اشتہاروں کے ذریعے نہیں خریدا ہے۔ میڈیا کو علم ہے کہ موجودہ معاشی بحران پی ٹی آئی نے پیدا کیا ہے اور حکومت اس کو درست کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘

خاتون صحافی پاکستان میں کتنی محفوظ؟