1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہمند ڈیم: مقامی لوگوں کے تحفظات کیا ہیں؟

مدثر شاہ ضلع مہمند
2 مئی 2019

طویل انتظار کے بعد مہمند ڈیم کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ مقامی لوگ اس کی تعمیر کے خلاف نہیں لیکن وہ اپنے حقوق کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Ho85
Polio in Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan
تصویر: DW/M. Ayub Sumbal

مہمند ڈیم قبائلی علاقہ مہمند میں اس جگہ تعمیر کیا جا رہا ہے جہاں سن 1962 میں ورسک ڈیم بنایا گیا تھا۔ ورسک ڈیم بناتے وقت جو وعدے قبائلیوں سے کیے گئے تھے، ان میں سے کئی ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔

ڈی ڈبلیو نے چند ماہ قبل مقامی افراد سے ان کے تحفظات کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ ملک اختر رضا ایک متحرک شخصیت ہیں اور وہ نئے ڈیم کی تعمیر سے قبل مہمند قبیلے کے نوجوانوں کو  ورسک ڈیم کی تعمیر کے وقت کیے گئے حکومتی وعدوں کے بارے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

ملک اختر رضا ترکزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ورسک ڈیم کے لیے حکومت نے کسی معاہدے کے بغیر ہماری تیرہ، چودہ سو ایکڑ زمین پر زبردستی قبضہ کیا تھا۔ یہ زمین ہی ہمارے لیے روزگار کا واحد وسیلہ تھی۔ اس پہاڑ سے ہم پتھر نکالتے اور پھر بیچتے تھے۔ ہمیں زمینوں کا کوئی معاوضہ نہیں ملا۔‘‘

ان کے حجرے میں علاقے کے نوجوان، مشیران اور عمائدین جمع ہو رہے ہیں۔ گل نواز خان سیاسی و سماجی کارکن ہیں اور گزشتہ چند مہینوں سے ڈیمز کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ڈیم کے متاثر افراد کے جائز مطالبات حکمرانوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ گل نواز کا کہنا تھا، ’’ہمارا تین پوائنٹ ایجنڈا ہے۔ ہم ورسک ڈیم کی رائیلٹی مانگتے ہیں، ان ڈیمز میں مقامی لوگوں کو نوکریاں ملیں اور ہم اپنے علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔‘‘

اس علاقے میں نہ تو بجلی ہے اور نہ ہی پینے کا صاف پانی۔ سکول اور ہسپتال کی عمارتیں موجود ہوں تو سٹاف نہیں ہوتا اور جہاں سٹاف ہے وہاں عمارت اور دیگر سہولیات دستیاب نہیں۔

مہمند اور ملاگوری قبیلوں کے پندرہویں جرگے میں بھی انہی مسئلوں کے حل کے بارے میں ہی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ حاجی عزیز مہمند کو معلوم ہے کہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ضرورت سے بہت کم ہے۔ اور یہ بھی کہ پاکستان کے لیے نئے ڈیمز کی تعمیر نا گزیر ہے۔

حاجی عزیز خان کا کہنا تھا، ’’ہم نئے ڈیمز کے خلاف نہیں ہیں لیکن ہم اپنے حقوق چاہتے ہیں۔ ہمیں پاکستانی حکومت سے توقع نہیں ہے کہ وہ ہمیں ہمارے حقوق دے گی۔ ہم اس ڈیم کو تب تک نہیں بننے دیں گے جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جائیں گے۔ ہم ہائی کورٹ جائیں گے اور پر امن احتجاج کے لیے قبائلیوں کو اکٹھا کریں گے اور اسلام آباد میں احتجاج کے لیے لے کر جائیں گے۔ ہم اپنے حقوق لے کر ہی رہیں گے۔‘‘

مہنمد ڈیم کی قریبی آبادیوں میں زیادہ تر لوگوں کے مکانات کچے ہیں۔ ایاز خان بھی یہیں کے رہائشی ہیں اور ان کے تین شادی شدہ بچے بھی گھاس پھونس سے بنے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ غربت اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے علاقے کے مرد مضافاتی علاقوں میں دن بھر مزدوری کرتے ہیں۔

گل نواز جیسے لوگ اور علاقے کی دیواروں پر لکھے پیغامات ہی ایاز خان اور اس جیسے دیگر لوگوں کے لیے اپنی بات حکومت تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ اتنا بڑا منصوبہ علاقہ میں شروع ہونے کے باوجود بھی مقامی لوگوں میں خوشی کم ہی نظر آتی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایاز خان  کا کہنا تھا، ’’میرے دونوں ہاتھ ٹھیک تھے اور اچھی خاصی نوکری تھی لیکن پھر مائن میں ایک ہاتھ کٹا تو مجھے ریٹائر کر دیا گیا۔ یہ ہاتھ ملک کی خاطر کٹ چکا ہے اور اپنی گردن بھی کٹوانے کو تیار ہوں۔ پینشن سے بمشکل میرے گھر کے اخراجات پورے ہو رہے ہیں۔ میرا خود اپنے گھر میں کمرہ بھی نہیں ہے۔ گھر ایک بار سیلاب میں تباہ ہوا تھا اور اب مہمند ڈیم کی وجہ سے۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ مجھے کچھ ملے گا۔‘‘