1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی بحران آپ کے دروازے پر دستک دے چکا ہے

28 ستمبر 2021

 سپریم کورٹ پاکستان میں دو دہائیوں سے زائد عرصے سے رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی ناصر اقبال پکے اسلام آبادی ہیں، مزاج میں بھی اور صحافتی پریکٹس میں مکمل احتیاط کے حوالے سے بھی۔

https://p.dw.com/p/40xjc
Pakistan | DW Blogger Iffat Hasan Rizvi
تصویر: privat

ناصر اقبال اسلام آباد کی چوڑی سڑکیں دیکھ کر بے اختیار کہتے ہیں کہ پہلے یہاں جنگل ہوا کرتا تھا، عمارتوں کی جانب اشارہ کر کے بتاتے ہیں کہ اس جگہ پہلے ایک نالہ ہوتا تھا، جس میں مارگلہ کا شفاف پانی بہتا تھا، راہ چلتے سبزے سے خوشبو آتی تھی۔

میں نے ایک بار جولائی میں سورج کی تپش اور حبس کو کراچی سے بھی زیادہ قرار دیا تو مجھے ٹوک کر کہنے لگے، یہ اسلام آباد کا موسم نہیں۔ یہاں ایک دن گرمی ہو یا رات میں حبس تو صبح بارش ہو جایا کرتی تھی، انتظار نہیں کرواتی تھی۔ نہ زیادہ بارش کا زور ہوتا تھا نہ مسلسل گرمی۔ اسلام آباد اب بدل گیا ہے، اب یہاں بارش کے بعد سیلابی ریلے بھی آجاتے ہیں، زیر زمین پانی کی کمی کا شکوہ رہتا ہے اور شہر کے کئی سیکٹرز واٹر ٹینکرز پہ انحصار بھی کرتے ہیں۔

موسم کی نظریں بدلنے کا شکوہ لاہور والوں کو بھی ہے اور ایسا ہی کراچی کے باسی بھی محسوس کرتے ہیں۔ کراچی والوں نے تو اس حقیقت کو شاید نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا ہے کہ زیادہ بارش آئے گی تو پانی زیادہ آئے گا اور یہ زیادہ پانی ان کے گھروں، دفتروں، کاروبار، سڑکوں، گاڑیوں کے اندر غرض جہاں راہ ملے گی وہاں آئے گا۔ بالکل ایسے ہی کراچی والے گرمی کی شدت میں بلبلانے کو بھی اب عادت بنا رہے ہیں۔ شہر میں گرمی کی لہر سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا سانحہ 2015ء میں ہوا تھا، جس کے لیے کوئی تیار نہ تھا، اس کے بعد ایسی کئی لہریں آ چکی ہیں، اب شہر والے تیاری پوری رکھتے ہیں۔

پاکستان میں موسم کے بدلتے تیور کو صرف بڑے شہر نہیں چھوٹے دیہی علاقے بھی محسوس کر رہے ہیں۔ یہ کم ترقی یافتہ علاقے خشک سالی جھیل رہے ہیں اور غیر معمولی بارشوں کے موسم میں سیلاب کا سامنا بھی انہیں کرنا پڑتا ہے۔

سندھ اور بلوچستان  میں درجن کے قریب اضلاع نے گزشتہ دو تین برسوں میں شدید خشک سالی بھگتی ہے، ان میں دادو، بدین، تھر پارکر، جامشورو سمیت کئی دیگر اضلاع شامل تھے۔ بلوچستان میں بھی خشک سالی سے متاثرہ اضلاع جعفر آباد، ژوب، پنجگور، کوئٹہ اور کئی دوسرے تھے۔ یہ خشک سالی ان علاقوں کا تاریخی خاصہ نہیں تھی مگر اب معمول بنتی جا رہی ہے۔

جب گزشتہ برس ٹڈی دَل نے پاکستان کا رخ کیا تو کسانوں کو اس گلے پڑی مصیبت کی شدت کا اندازہ نہیں تھا، جب یہ سیاہ بادلوں کی شکل میں آئیں تو منٹوں میں کتنی ہی فصلیں چٹ کر گئیں۔ ہم سمجھتے رہے کہ ٹڈیوں کا، جو سفرافریقہ سے شروع ہوا ہے، یہ زیادہ سے زیادہ یمن تک ہی پھیل سکے گا لیکن اندازے غلط تھے۔

 ہمارے اندازے صرف ٹڈی دَل کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی ممکنہ تباہی کے حوالے سے بھی حقیقت سے ذرا دور ہیں۔ یہ بڑا سچ ہے، جسے وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں بھی دہرایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ پاکستان اور پاکستان جیسے کئی ترقی پذیر ممالک نہیں مگر ہمیں اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

عرب ممالک نے ترقی کی چکاچوند تو ابھی ماضی قریب میں دیکھی ہے مگر یورپ، امریکا، برطانیہ، روس، چین اور جاپان میں صنعتی ترقی کا دور انیسویں صدی کے بعد اپنے عروج پہ تھا۔ خوب فیکٹریاں لگیں، بے پناہ مال بنا، لوگوں کی ضرورتوں کی جگہ خواہشوں نے لے لی، بلند و بالا عمارتیں، دفاتر، مارکیٹیں، بزنس، اکانومی سب زور دار چلا، ان سب کو چلانے کے لیے توانائی صرف ہوئی اور اس ضرورت سے زیادہ توانائی کے استعمال اور اخراج نے دنیا کا اوسط درجہ حرارت بڑھا دیا۔

ترقی کے اس چکر میں پاکستان اور اس جیسے ترقی پذیر ممالک کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا مگر دنیا کا درجہ حرارت بڑھا تو متاثرین وہ ممالک بھی بنے، جنہوں نے صنعتی ترقی کے پھل کا ذائقہ ابھی ٹھیک سے چکھا بھی نہیں۔

طویل عرصے تک موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر گزشتہ برس آٹھواں تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان یورپ یا امریکا کا گریبان پکڑ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ فیکٹریاں آپ لگائیں اور سیلاب بھگتیں ہم۔ موسمیاتی تبدیلی کے بحران کو جھیلنا، اس کی تیاری اور ممکنہ تباہی میں کمی کا انتظام عالمی اداروں کی مدد کے ساتھ ہمیں خود کرنا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی پر نظر رکھنے والے ادارے جرمن واچ کی گلوبل کلائمیٹ رسک رپورٹ پڑھیں، اقوام متحدہ کی اسٹیٹ آف گلوبل کلائمیٹ کی تحقیق دیکھیں، موسمیات کے لیے مختص بیسیوں ویب سائٹیس کا دورہ کیجیے، درجنوں یونیورسٹیوں کی تحقیق ملاحظہ کریں، سب کا خیال ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر تو بلا تخصیص امیر یا غریب ملک سب پہ ہے مگر اس کی تباہی ان ممالک میں زیادہ محسوس ہو گی، جہاں معاشی، انتظامی اور سیاسی نظام ہچکولے کھا رہا ہے۔

سیلاب، آندھی، سمندری طوفان، زیادہ بارشیں، بے وقت بارشیں، خشک سالی، ٹڈی دَل، بے وقت اولے پڑنا، درجہ حرارت کا بے قابو ہونا یا گرمی کی خطرناک لہر، یہ سب موسمیاتی ایمرجنسی کے معاملات ہیں۔ قدرتی آفت یہ دیکھ کر نہیں آتی کہ آگے پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی سویلین افسر کے پاس ہے یا کوئی یونیفارم والا بیٹھا ہے۔

یہاں بارش کا چھینٹا پڑتا ہے اور سیاسی طعنے بازی شروع ہو جاتی ہے، اپوزیشن لہک لہک کر پانی میں ڈوبے شہریوں کی تصاویر کے ساتھ حکومت پہ جملے پھینکتی ہے، مرکزی حکومت پارٹی بن کر صوبائی حکومت کے لتے لیتی ہے۔ سیلاب یا خشک سالی ہو تو گویا صوبائی حکومت کے خلاف بیان بازی کا بڑا سنہری موقع ہاتھ آجاتا ہے کیونکہ متاثرہ دیہات سے بڑی اندوہناک تصاویر آتی ہیں۔

اس وقت پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عوام کی عمومی رائے جاننے کے لیے ملک گیر سروے کی ضرورت ہے، پاکستانی عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی صرف گریٹاتھنبرگ کا مسئلہ نہیں، یہ بحران آپ اور ہمارے گھر پہ دستک دے چکا ہے۔

اپنے عوامی نمائندوں سے موسمیاتی مسئلے پر سوال پوچھیں، ان کی سیاسی ترجیحات پر سوال پوچھیں، ان سے مسئلے کا حل پوچھیں کیونکہ لیڈر کا یہی کام ہوتا ہے۔ انتخابی منشور میں موسمیاتی بحران ہے کہ نہیں، یہ پوچھیں۔