1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملا عمر اور امریکی خفیہ ایجنسی کی ’شرمناک ناکامیاں‘

11 مارچ 2019

ڈچ خاتون صحافی بیٹے ڈیم نے اپنی نئی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے رہنما ملا عمر کئی برسوں تک افغانستان میں امریکی اڈے کے قریب رہائش پذیر رہے۔ اس کتاب میں امریکی خفیہ اداروں کی ناکامیوں کو عیاں کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Emdo
Afghanistan Mullah Mohammed Omar Taliban Anführer
تصویر: picture-alliance/dpa

نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکی خفیہ اداروں کا خیال تھا کہ طالبان کے رہنما ملا محمد عمر پاکستان میں روپوش ہو گئے تھے لیکن ڈچ خاتون صحافی بیٹے ڈیم نے ملا عمر کی سوانح عمری میں اس کے برعکس معلومات فراہم کی ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب’سرچنگ فار این اینیمی‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملا عمر سن دو ہزار تیرہ میں اپنی وفات سے پہلے تک دراصل افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکا کے ایک اہم فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے۔ اس کتاب کے مطابق وہ تقریبا خفیہ زندگی گزار رہے تھے اور اپنے اہلخانہ سے بھی نہیں ملتے تھے۔ وہ اس دوران اپنی یادداشتیں بھی تحریر کرتے رہے۔

ڈچ خاتون صحافی نے اس نئی کتاب کے لیے تقریباً پانچ برس تحقیق کی اور انہوں نے جبار عمری کا انٹرویو بھی کیا۔ جبار عمری ملا عمر کے محافظ تھے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد انہی کے ساتھ رہے۔

کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ملا عمر بی بی سی پشتو کی شام کی سروس لازمی سنا کرتے تھے جبکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر سن کر بھی انہوں نے بیرونی دنیا کو کوئی پیغام دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔

ڈیم مزید لکھتی ہیں کہ نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکی حکومت نے ملا عمر کے سر کی قیمت دس ملین ڈالر رکھ دی تھی جبکہ وہ اس وقت افغان علاقے قلات میں واقع کمپاؤنڈ میں چھپے ہوئے تھے۔ جس گھر میں ملا عمر کی رہائش تھی، اس گھر میں رہنے والی فیملی کو بھی اس ’پراسرار مہمان‘ کی شناخت کا علم نہیں تھا۔ وہ لکھتی ہیں کہ امریکی فورسز دو مرتبہ ملا عمر کے انتہائی قریب پہنچ گئی تھیں لیکن وہ انہیں پکڑنے میں ناکام رہیں۔ ایک مرتبہ تو امریکی فوجی اُس گھر بھی گئے، جہاں ملا عمر اور جبار عمری صحن میں موجود تھے لیکن فوجی اس جگہ داخل نہیں ہوئے، جہاں یہ دونوں چھپ گئے تھے۔

اسی طرح ایک مرتبہ معمول کا گشت کرتے ہوئے فوجی اس گھر میں داخل ہوئے لیکن وہاں بنائے ہوئے خفیہ کمپاؤنڈ کا خفیہ دروازہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ کتاب کے مطابق ملا عمر نے یہ خفیہ ٹھکانہ سن دو ہزار چار میں اس وقت چھوڑنے کا فیصلہ کیا، جب امریکی فوجیوں نے اس خفیہ ٹھکانے سے چند سو میٹر دور لغمان بیس کی تعمیر شروع کی۔

اس کے بعد ملا عمر جس جگہ منتقل ہوئے، وہاں بھی ایک نئی بیس کی تعمیر شروع کر دی گئی تھی۔ وہاں ایک ہزار سے زائد امریکی فوجی تعینات کیے گئے تھے اور کبھی کبھار امریکیوں کے ساتھ ساتھ برطانوی اسپیشل فورسز بھی وہاں قیام کرتی تھیں۔ کتاب کے مطابق پکڑے جانے کے خوف کے باجود بھی ملا عمر وہاں سے نئی جگہ منتقل نہیں ہوئے تھے۔ جس وقت امریکی جہاز آسمان پر پرواز کر رہے ہوتے تھے، تو وہ سرنگ میں چھپے رہتے تھے۔

ڈیم نے مزید لکھا ہے کہ ملا عمر اس دوران صرف اپنے محافظ اور باورچی سے ہی بات چیت کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس سم کے بغیر نوکیا کا ایک پرانا موبائل بھی تھا، جسے وہ اپنی آواز میں قرآنی آیات ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔    

ملا عمر سن  انیس سو چھیانوے تا  سن دو ہزار ایک  افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں نے کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کی وفات کی خبریں سن دو ہزار پندرہ میں عام کی گئی تھیں جبکہ ان کا انتقال سن دو ہزار تیرہ میں ہی ہو گیا تھا۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں سختی سے ایسے دعوؤں کی تردید کی گئی ہے کہ ملا عمر افغانستان میں قیام پذیر تھے۔ جاری ہونے والے اس بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہمارے پاس ایسے کافی شواہد ہیں کہ وہ پاکستان میں رہے اور وفات بھی وہاں ہوئی۔‘‘

ا ا / ک م (نیوز ایجنسیاں)