1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مفتی کفایت اللہ کو کیوں گرفتار کیا گیا؟

27 اکتوبر 2019

پاکستان میں تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ جمیعت العلمائے اسلام کے رہنما مفتی کفایت اللہ کو ان وجوہات کی بنا پر گرفتار نہیں کیا گیا جن کا تذکرہ مانسہرہ کے ڈپٹی کمشنر نے اپنے حکم نامے میں کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3S1hA
Pakistan Proteste Jamiat Ulema-e-Islam Fazl 24. Oktober 2014
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

ڈپٹی کمشنر مانسہرہ کیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر کی جانب سے مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کے لیے جاری کیے گئے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ مفتی کفایت اللّٰہ آزادی مارچ کے لیے چندہ اکٹھا کر رہے تھے اور کارنر میٹنگز بھی کر رہے تھے۔ اس حکم نامے کے تحت مفتی کفایت اللّٰہ کو 'عوامی تحفظ ‘ کے لیے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کرکے 30 روز کے لیے ہری پور جیل بھجوایا جا چکا ہے۔

پاکستانی تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈی سی مانسہرہ کے حکم نامے میں مفتی کفایت اللہ پر لگائے جانے والے الزامات مضحکہ خیز ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''اگر ان الزامات کو درست بھی مان لیا جائے تو پھر بھی وہ اس آزادی مارچ کے لیے کام کر رہے تھے جس کی اجازت خود حکومت نے رہبر کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے بعد ہونے والے معاہدے کے ذریعے دی ہے۔ ان کی گرفتاری کی وجہ مختلف ٹاک شوز میں کی جانے والی وہ گفتگو بھی ہو سکتی ہے جس میں وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے مختلف سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔‘‘

کیا مولانا فضل الرحمان کامیاب ہوں گے؟

یہ امر بھی اہم ہے کہ ایسے ٹاک شوز میں مفتی کفایت اللہ کا یہ موقف رہا ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کو جنگ کی صورت میں دفاعی تجزیہ نگاری کا حق تو حاصل ہے، لیکن سرکاری خزانے سے پنشن لیتے ہوئے ان کا ملک کے سیاسی امور پر رائے زنی کرنا مناسب نہیں۔ مفتی کفایت اللہ کے خیال میں ان ایسے افسران کو ذاتی حیثیت میں ٹی وی پر آنا چاہیے وگرنہ اگر یہ ریٹائرڈ افراد اپنی سابقہ ملٹری شناخت کے ساتھ ٹی وی مباحثوں میں حصہ لیں گے تواس صورت حال میں فوج جیسے اہم قومی ادارے کا احترام متاثر ہو سکتا ہے۔ وہ گزشتہ عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

مجیب شامی کے بقول، ''دلیل کا جواب دلیل سے دینا ہی بہتر طرز عمل ہوتا ہے، کیوں کہ اس طرح کی گرفتاریاں احتجاج کرنے والے لوگوں کو مشتعل کرنے اور احتجاجی تحریک میں بعض اوقات جان ڈال دینے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ احتجاجی تحریکیں اس طرح کی غیر قانونی گرفتاریوں سے ختم نہیں ہوتیں۔ مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری نے حکومت کے ساتھ ہونے والے رہبر کمیٹی کے معاہدے کو نقصان پہنچایا ہے۔‘‘

جمیعت العلمائے اسلام ف کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری محمد اسلم غوری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''مفتی کفایت اللہ کا قصور یہ تھا کہ وہ احتجاجی مارچ اور مولانا فضل الرحمان کے بیانیے کو بہت موثر طریقے سے بیان کر رہے تھے اور سوشل میڈیا کے ٹرینڈز سے پتہ چل رہا تھا کہ لوگ ان کے موقف کو پسند کر رہے تھے۔ اس لیے ان کو خاموش کرانا ضروری سمجھا گیا۔ پاکستان میں میڈیا پابندیوں کی زد میں ہے۔ پہلے مولانا فضل الرحمان کی لائیو کوریج پر پابندی لگائے گئی، پھر ان کے ٹاک شوز بند کیے جانے لگے، اب یہ اگلا مرحلہ ہے۔‘‘

مدرسوں کے بجائے اسکول زیادہ انتہا پسند پیدا کر رہے ہیں

مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری سے ایک پہلے جے یو آئی ہی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ کو غیر ملکی قرار دے کر ان کا شناختی کارڈ منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اسی کا حوالہ دیتے ہوئے اسلم غوری نے کہا، '' حافظ حمد اللہ کا واقعہ آپ کے سامنے ہے۔ ہماری مرکزی شوریٰ کے لوگوں کو فون کرکے کہا جا رہا ہے کہ آپ اجلاس میں احتجاجی مارچ نہ کرنے کے حق میں رائے دیں۔ ہمارے کارکنوں کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس طرح ہم سرکاری مذاکراتی کمیٹی کے آگے سر جھکا دیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔‘‘

سوشل میڈیا پر شہرت پانے والے اور ایک حالیہ ٹی وی ٹاک شو میں مفتی کفایت اللہ کے ساتھ بحث مباحثہ میں شریک دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ بریگیڈیئر فاروق حمید خان نے بھی اس ضمن میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا، ''مفتی کفایت اللہ جیسے لوگ پاکستان کی تاریخ کے اس اہم اور نازک موڑ پر کسی ایجنڈے کے تحت لوگوں کو فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ انہوں نے کئی مرتبہ اہم قومی شخصیات کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی۔ وہ حد سے تجاوز کر گئے تھے۔ اس لیے اس طرح کی صورتحال میں قانون کو تو اپنا راستہ بنانا ہی ہوتا ہے کیونکہ ایسے طرز عمل کی اجازت آئین میں ہے اور نہ ہی قانون میں۔‘‘ ان کے خیال میں ایسے لوگ دلیل بھی نہیں مانتے، اس لیے ایسے لوگوں کو ٹی وی پر نہیں لایا جانا چاہیے۔

سوشل میڈیا پر لوگ اس گرفتاری پر ملے جلے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ان پر آرٹیکل چھ لگانے کی بات کر رہے ہیں، دوسری طرف 'میں بھی مفتی کفایت ہوں‘ کے ٹرینڈ کے ساتھ ٹویٹر پر ان کی حمایت میں بھی بات کی جا رہی ہے۔ ٹویٹر پر ایک صارف نے مفتی کفایت اللہ کی ہتھکڑیوں کے ساتھ لی گئی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا،''پاکستان میں کچھ بھی نہیں بدلا، ایک اسلامی سکالر اور مفتی کے ساتھ  مجرموں کی طرح کا برتاؤ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ وہ کٹھ پتلی حکومت کے حوالے سے اپنی مخصوص رائے رکھتا ہے۔‘‘

نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں ضمانت منظور