1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مفاہمت یا مزاحمت، کیا ن لیگ تقسیم کا شکار ہے؟

عاطف توقیر
30 جولائی 2021

پاکستان میں سابق حکمران جماعت ن لیگ کے رہنما پارٹی کے اندر تقسیم کی خبروں کو مسترد کرتے ہیں، تاہم صحافیوں کے مطابق یہ جماعت داخلی لڑائی کا شکار ہے۔

https://p.dw.com/p/3yK5R
Pakistan Präsidentenwahlen | Plakatte
تصویر: Reuters/A. Soomro

پاکستانی میڈیا پر یہ خبریں بارہا گردش کرتی رہی ہیں کہ سابق حکمران جماعت ن لیگ میں پارٹی کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف اور جماعت کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔

شہباز شریف ن لیگ اور نواز شریف کے وفادار نہ ہوتے تو آج وزیراعظم ہوتے، مریم نواز

میں آئین اور حلف توڑنے والے فوجی کی عزت نہیں کرتا، نواز شریف

کچھ عرصے قبل ایک مقامی ٹی وی چینل سے بات چیت میں جب شہباز شریف نے کہا کہ وہ اس وقت لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اپنے بھائی اور پارٹی کے قائد نواز شریف سے مل کر انہیں مفاہمت پر راضی کر سکتے ہیں، تو ایسے میں یہ بحث مزید شدت اختیار کر گئی تھی کہ آیا نواز شریف مفاہمتی سیاست کی جانب دوبارہ لوٹیں گے یا نہیں۔

کیا دونوں بھائیوں اور اس جماعت کے دو اہم ترین قائدین کے درمیان اختلافات موجود ہیں، جن پر شہباز شریف نواز شریف کو منانا چاہتے ہیں؟

معروف ٹی وی اینکر وسیم بادامی کے مطابق جماعت کے اندر یہ تقسیم نہ صرف واضح انداز سے موجود ہے بلکہ نواز شریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز کے ترجمان اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر اس اختلاف رائے کی تصدیق بھی کر چکے ہیں۔

Pakistan Hamza Shahbaz und Maryam Nawaz
مریم نواز متعدد مرتبہ ان خبروں کی تردید کر چکی ہیںتصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/PPI

وسیم بادامی کہتے ہیں، ''یہ تقسیم  سمجھنا مشکل نہیں۔  آپ مریم بی بی سے پوچھیں کہ کیا گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور یہ دھاندلی کس نے کی، تو وہ آپ کو واضح انداز سے پاکستان کے طاقت ور حلقوں اور شخصیات کے نام لے کر بتائیں گی کہ کس طرح سے دھاندلی کر کے ان کی جماعت کو ہرایا گیا۔ اب یہی سوال شہباز شریف سے کریں تو وہ اس کے جواب دو ٹوک انداز میں دینے کی بجائے یہاں وہاں موڑ دیں گے۔‘‘

وسیم بادامی مزید کہتے ہیں، ''پاکستان کے معروضی حالات کو دیکھا جائے تو لگتا یہی کہ شہباز شریف فوج کے ساتھ براہ راست لڑائی کی بجائے چاہتے ہیں کہ پہلے عوام میں اپنی جڑوں کو مضبوط کیا جائے اور پھر جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی جانب سفر کیا جائے۔‘‘

اس جماعت میں اختلافات کی خبریں نئی نہیں بلکہ کئی مرتبہ تو بعض حلقے یہ تک چہ مگوئیاں کرتے دکھائے دیتے ہیں کہ شہباز شریف اس جماعت کی سربراہی چھوڑ سکتے ہیں۔ تاہم وسیم بادامی کے مطابق شہباز شریف ایسی صورت میں اعلانیہ پارٹی چھوڑنے یا استعفیٰ دینے کی بجائے ممکنہ طور خاموش ہو کے ایک طرف ہو جانے کا راستہ اپنا سکتے ہیں لیکن اپنے بھائی سے بہ راہ راست اور کھلے عام کسی اختلاف کے اظہار کا راستہ اختیار نہیں کر سکتے۔

معروف صحافی اور ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ شہباز شریف کے مستعفی ہونے کے تصور کی تصدیق تو ممکن نہیں، تاہم ن لیگ میں موجود اختلافات کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ ''صورت حال ظاہر ہے کہ خراب ہے۔ بہت سارے ایکشن اس کی غمازی کرتے ہیں۔‘‘

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں حالیہ انتخابات سے قبل انتخابی مہم میں شہباز شریف کی عدم موجودگی کو بھی عاصمہ شیرازی نے اس اختلافی سوچ کا آئینہ دار قرار دیا۔ انہوں نے سیالکوٹ میں ضمنی انتخاب میں اس جماعت کا نشست ہار جانا بھی پارٹی میں داخلی اختلافات ہی سے تعبیر کیا۔

Nawaz Sharif Rede in Lahore
نواز شریف حالیہ کچھ عرصے میں دو ٹوک انداز میں فوجی قیادت پر تنقید کرتے دکھائی دیے ہیں۔تصویر: picture alliance/AP Photo

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں، ''مسلم لیگ نواز جس بیانیے کے ساتھ میدان میں آئی تھی، اس بیانیے پر پارٹی کے اندر اختلاف اصل میں اس جماعت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ اس بیانیے پر پریشانی کی بجایے ن لیگ کو آنے والے دنوں میں داخلی بحران کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘‘

عاصمہ مزید کہتی ہیں، ''پارٹی کے اندر موجود اختلافات کا حل بہ ظاہر نواز شریف ہی کے پاس ہے کہ وہ کس طرح سے ان اختلافات کو ختم کرتے ہیں، پارٹی کو ایک واضح جہت دیتے ہیں اور اپنی جماعت کو اس بحرانی صورت حال سے نکالتے ہیں۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں کیوں کہ یہاں اس جماعت کے منتخب اراکین میں سے اکثر بہ ظاہر نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ ماضی کی طرح کھڑے دکھائی نہیں دیتے۔‘‘

سابق وزیرخزانہ اور ن لیگ کے رہنما اسحاق ڈار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں تاہم جماعت کے اندر اختلافات کی ان خبروں کو ایک مرتبہ پھر افواہوں سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کے اندر اختلافی رائے سننے کا رواج ہے، تاہم فیصلہ جماعت کے قائد نواز شریف ہی کرتے ہیں، ''یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر یہ بحث جاری ہے۔‘‘

اسحاق ڈار نے مزید کہا، ''میاں نواز شریف کا بیانیہ واضح ہے، ووٹ کو عزت دو، آئین کی بالادستی یا پارلیمانی سپریمیسی یا اداروں کو اپنے آئینی دائروں میں کام کرنا۔ اگر کوئی اسے مزاحمت کا نام دیتا ہے، تو یہ عجیب بات ہو گی کیوں کہ یہ آئینی بات ہے اور اس کا اصل نام مفاہمت ہونا چاہیے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ بیانیہ نہیں ہونا چاہیے، تو یہ بھی عجیب بات ہو گی۔ یہی ہماری جماعت کا بیانیہ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے۔‘‘

اسحاق ڈار نے شہباز شریف کے استعفے کی خبروں کو دو ٹوک انداز میں مسترد کیا اور کہا، '' بعض افراد اس بحث کے بعد سوشل میڈیا پر فیصلے بھی صادر فرما رہے ہیں جو افسوس ناک ہیں۔ شہباز شریف اپنے بھائی اور جماعت کے قائد نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ تمام مفروضے جلد ہی دم توڑ دیں گے کیوں کہ ان میں کوئی حقیقت نہیں۔‘‘

پاکستان مسلم لیگ نون کی ریلی، لوگ کیا کہتے ہیں

سینیئر صحافی اعزاز سید نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا، ''سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان اختلاف کوئی جنگ نہیں ہے۔ جنگ اس وقت ہو گی اگر دونوں کے رستے باقاعدہ طور پر الگ ہوں گے اور دونوں اپنی اپنی چھتری تلے اپنے اپنے حامی جمع کرنا شروع کر دیں گے۔ یعنی دنوں عوامی سطح پر اس اختلاف کا اظہار کریں گے، جو میری رائے میں شاید ممکن نہ ہو۔‘‘

اعزاز سید کہتے ہیں کہ اختلافات یقیناﹰﹰ موجود ہیں، تاہم عمومی طور پر ''ہاؤس آف شریفز اپنے اختلافات کا اظہار کبھی عوامی سطح پر نہیں کرتا بلکہ یہ بند کمرے ہی میں کیے جاتے ہیں۔‘‘