1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مزید بچے پیدا نہیں کر سکتی، مگر شوہر نہیں مانتا‘

18 فروری 2019

حاملہ، پریشان اور غریب پاکستانی خاتون زمینہ کے سامنے تلخ سوال ہے، وہ خفیہ اسقاط حمل کے ذریعے اپنی زندگی خطرے میں ڈالے یا چھٹا بچہ پیدا کر کے شوہر کے ہاتھوں اپنی زندگی مشکل بنائے؟

https://p.dw.com/p/3DawM
Geburten in Pakistan
تصویر: DW/D. Baber

زمینہ نے چھٹا بچہ پیدا کرنے کی بجائے اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہوئے خفیہ طریقے سے اسقاط حمل کا فیصلہ کیا۔ وہ ان دو ملین سے زائد خواتین میں سے ایک ہیں، جو پاکستان میں ہر سال خفیہ طور پر اسقاط حمل کے عمل سے گزرتی ہیں۔ پاکستان میں ان مسائل کی بنیادی وجوہات مذہبی رہنماؤں کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی کے اقدامات پر تنقید، مانع حمل اشیاء اور ادویات تک عدم رسائی اور جنسی تعلیم کی کمی جیسے امور ہیں۔

نسوانی بیماریوں کے تکلیف دہ علاج کی شکایت بھی تحریک بن گئی

اسقاط حمل کی قانونی اجازت: آئرلینڈ میں تاریخ رقم کر دی گئی

امریکی ادارے گُٹماچر انسٹیٹیوٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال حاملہ ہونے والی خواتین میں سے نصف، یعنی قریب چار اعشاریہ دو ملین خواتین، بغیر طے کیے حاملہ ہوتی ہیں اور ان میں سے چوون فیصد کا ابورشن یا اسقاطِ حمل کرواتی ہیں۔

زمینہ نے (خاتون کے تحفظ کی خاطر نام تبدیل کیا گیا ہے) پاکستانی شہر پشاور میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’تین سال پہلے، میری بیٹی پیدا ہوئی تھی، تو ڈاکٹر نہیں کہا تھا کہ اب مزید بچے پیدا نہ کروں کیوں کہ یہ میری صحت کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔‘‘

اس 35 سالہ خاتون نے مزید کہا، ’’مگر میں جب بھی اپنے شوہر سے بات کرتی ہوں، وہ کہتا ہے، خدا پر بھروسا رکھو۔ میرا شوہر ایک مذہبی شخص ہے اور وہ بیٹوں کی قطار چاہتا ہے۔‘‘

کئی دہائیاں قبل پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کا نعرہ تھا، ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ مگر اس نعرے کو مذہبی طبقے کے علاوہ قوم پرستوں نے بھی مسترد کر دیا تھا، جو ہم سایہ ملک بھارت کی ایک اعشاریہ دو ارب آبادی کے تناظر میں ملک کی آبادی میں اضافہ چاہتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ آبادی دو سو سات ملین ہے۔

زمینہ کے مطابق، ’’میں جب بھی اپنے شوہر سے خاندانی منصوبہ بندی کا کہتی ہوں، وہ مسترد کر دیتا ہے۔ میری ساس کے نو بچے ہیں۔ جب میں اپنے شوہر سے شکایت کرتی ہوں کہ میں مزید بچے پیدا نہیں کر سکتی، تو وہ کہتا ہے، جب میری ماں نہیں مری تو تم بھی زندہ رہو گی۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان میں قانون طور پر اگر ماں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوں، تو اسقاط حمل کی اجازت ہے، تاہم بہت سے ڈاکٹرز اسلامی عقیدے کی بنا پر اسقاط حمل کرنے سے کتراتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان خواتین کو غیر قانونی طور پر یہ عمل سرانجام دینا پڑتا ہے جب کہ حکام اس جانب دخل اندازی نہیں کرتے۔

ع ت، ع الف (اے ایف پی)