1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مجھے شیزوفرینیا ہے، معالج درکار ہے

30 مئی 2021

وہ بچیاں مجھے رات کے اندھیرے میں لے جا کر کہتی ہیں کہ ایسا ہی اندھیرا تھا جب ہمیں اغوا کرنے والے ان کھیتوں میں لائے تھے۔ ہم چیختی تھیں، امی کو پکارتی تھیں اور وہ ہمیں چیخنے پر بے دردی سے مارتے تھے۔ وقار ملک کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3uB4G
وقار احمد ملک
تصویر: privat

میں رات کو سونے کے لیے بستر پر جاتا ہوں تو اپنے ساتھ کیے اس وعدے  کے ساتھ جاتا ہوں کہ صرف  ایک نقطے پر ارتکاز کروں گا اور اس کے علاوہ کسی نکتے پر غور نہیں کروں گا اور جلد سونےکی کوشش کروں گا۔ میں اپنے تخیل میں ایک فرضی نقطہ بناتا ہوں اور تمام خیالات اور نکتوں کو روکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ کوشش بار آور ثابت ہوتی ہے اور مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ میرے اور نیند میں اب کچھ حائل نہیں۔ لیکن اسی دوران میری نظروں کے سامنے ایک ایسا منظر آ جاتا ہے جو بالکل حقیقی نظر آتا ہے۔ یہ منظر لکڑی کے تختوں کا ہے جن پر گہری لکیریں ہیں۔ یہ گہری لکیریں ان ناخنوں کی ہیں جو زندہ مرنے سے پہلے تابوت کے تختے کو اپنی پوری طاقت سے کھرچ رہے تھے۔ یہ کس کے ناخن تھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ 

ہو سکتا ہے بلوچستان میں زندہ درگورخواتین کے ہوں یا سیکڑوں سال قدیم میکسیکو کے مزدوروں کے ہوں۔ ممکن ہے یہ ناخن ان خواتین کے ہوں جنہیں چڑیل قرار دے کر خطہ یورپ کے کسی مقام پر زندہ دفنا دیا گیا ہو یا پجاریوں کے حکم پر انسانوں کو بطور قربانی زندہ دفن کر دیا گیا ہو۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ناخن کس کے ہیں؟

میرے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور میں دوسری جانب کروٹ لیتا ہوں۔ یہ ناخن اور لکڑی کا تختہ بہت واضح دکھائی دے رہا ہے۔ اس قدر واضح ہے کہ میں اسےچھو سکتا ہوں۔ میرے دماغ میں جھکڑ چل رہے ہیں۔ بہت سارے سوالات ہیں جن کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔

کیا یہ ناخن ٹوٹ گئے ہوں گے؟ لکڑی کے تختے پر کھرچ ڈالنے والے ناخنوں کے پیچھے کتنے نیوٹن قوت ہو گی؟ کھرچنے والوں نے جو چیخیں ماری ہوں گی کیا یہ 108 ڈیسیبل تک گئی ہوں گی؟  نرخرے سے نکلتی آواز کی لہریں اسی فرد کے کانوں میں جا کر کیسا 'ساونڈ فیڈ بیک‘ بناتی ہوں گی؟ مرتے آدمی یا عورت نے ابدی اندھیرے  میں جانے سے ایک لمحہ پہلے کیا سوچا ہو گا؟

میں ہڑ بڑا کر بستر سے اٹھ جاتا ہوں۔ ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے دل کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا میں صرف ظلم ہی نہیں ہوا محبت کے باب بھی رقم ہوئے ہیں۔ عظیم مقاصد کے لیے ہیروز نے قربانیاں بھی دی ہیں۔ میں کولر سے ٹھنڈا پانی پینے کے بعد واپس بستر پر جاتے ہوئے عہد کرتا ہوں کہ اب اپنی توجہ کو ایک نقطے پر مرکوز کروں گا۔ اگر کوئی سوچ آئی بھی تو صرف محبت کی عظیم کہانیوں کو تخیل میں لانے کی کوشش کروں گا۔۔۔ نہیں دنیا اتنی بری نہیں ہے۔۔۔ میں دل کو سمجھاتا ہوں۔ دل سمجھ جاتا ہے۔

درد اُستاد ہے، ہم اس کے اچھے یا بُرے شاگرد ہیں!

مولانا وحیدالدین کی وفات اور روشن خیالوں کا سوگ، کیا ہم سب مذہبی ہیں؟

زندگی کیسے گزاریں؟ اگلے 66000 کلومیٹر میں یہ فیصلہ کرہی لیجئے

آنکھیں موندے میں نقطہ بناتا ہوں اور پھر ساری توجہ سمیٹ کر اس نقطے پر مرکوز کرتا ہوں۔ اب میں سونا چاہتا ہوں۔ مجھے صبح دفتر جانا ہے لیکن پھر نقطے میں سے دو چہرے نکلتے ہیں اور بڑے ہو کر میرے سامنے آ جاتے ہیں۔ میں ان چہروں کو اس قدر واضح دیکھ سکتا ہوں جیسے حقیقی زندگی میں لوگوں سے باتیں کرتے ان کے چہرے دیکھتا ہوں۔ یہ دو بچیوں کے چہرے ہیں۔ میں انہیں فورا پہچان لیتا ہوں۔ قصور کی زینب جب قتل ہوئی تو ہر طرف شور تھا۔ اسی ہفتے دو اور بچیوں کی خبر آئی جنہیں کھیتوں میں ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ زینب کی ہی ہم عمر تھیں۔ بچیوں کے دو چہروں کے نیچے سے دو ہاتھ برآمد ہوتے ہیں جو میرا گریباں پکڑ لیتے ہیں۔ دونوں بچیوں کے گالوں پر گہری لکیریں ہیں شاید آنکھوں سے مسلسل گرنے والے پانیوں نے اپنے لیے مستقل راستے بنا لیے تھے۔ بچیاں مجھے کہتی ہیں کہ ہمارے جیسی بچی بنو۔ میں بچی بن جاتا ہوں۔ وہ مجھے رات کے اندھیرے میں لے جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ایسا ہی رات کا اندھیرا تھا جب ہمیں اغوا کرنے والے ان کھیتوں میں لائے تھے۔ ہم چیختی تھیں، امی کو پکارتی تھیں اور وہ ہمیں چیخنے پر بے دردی سے مارتے تھے۔ جب انہوں نے ہمیں زمین پر گرایا تو ہمارے نتھنوں میں مٹی تھی۔ ہمارے اردگرد کماد کے پودے اور درخت بھوت تھے۔ ہمارا سانس بند ہوتا تھا۔ دل پھٹتا تھا۔

میں کانپ اٹھتا ہوں۔ بچیاں کہتی ہیں کہ تمہاری اخباروں میں دوسرے دن ہماری بھی تصویریں شائع ہوئیں تھیں لیکن ہم نہ ہی رنگت کی سفید تھیں اور ہی تمہارے دنیاوی معیار حسن پر پورا اترتی تھیں۔ کسی نے ہمارے لیے شور نہیں کیا۔ جانتے ہو کیوں؟ اس لیے کہ عقلی اور شعوری اعتبار سے تم سب ابھی مینڈک ہو۔ تمہارا دل تمہارے اپنے ہی بنائے ہوئےسطحی معیارات پر دھڑکتا ہے وگرنہ ہم پر اور معصوم زینیب پر ایک جیسا ظلم ہوا۔ اگر کسی ریپ ہوئی چیری پھاڑی گئی بچی کی تصویر تمہارے سوشل میڈیا پر وائرل ہو تو تم کچھ بات کر لیتے ہو ورنہ روزانہ کی اخباروں میں اندر کے صفحات پر یک کالمی خبر جس میں کسی بچی کے ریپ کا ذکر ہوتا ہے تم اسے سرسری دیکھ کر صفحہ پلٹ دیتے ہو اور چائے کا اگلا گھونٹ بھرتے ہو۔ چائے سڑکنے والے درندے کچھ معلوم بھی ہے کہ اس یک کالمی خبر والی بچی پر کیا قیامت گزری؟ تم نے کچھ غور نہیں کیا اور صفحہ پلٹ کر ایک سیاسی مسخرے کے گھٹیا بیان پر تمہاری نظریں گڑ گئیں اورتم زیر لب مسکرا اٹھے  کیونکہ وہ خبر چار کالمی تھی۔ تم، تمہاری سوچ، تمہاری مسکراہٹ، تمہارے اخبار اور تمہارے سیاسی مسخرے پرلعنت!

میں جھکی پلکوں کو اٹھاتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہزاروں چھوٹی چھوٹی بچیاں اور بچے میرا گریباں پکڑنے آ رہے ہیں۔ میں اٹھتا ہوں۔ میرے کپڑے پسینے سے بھیگ چکے ہیں۔ میرا گلا خشک ہے۔ میں کولر کی جانب دوڑتا ہوں ۔ ایک ہی سانس میں ٹھنڈا پانی چڑھاتا ہوں۔ پھر کافی دیر تک اپنا سانس بحال کرتا ہوں۔ گھڑی دیکھتا ہوں تو رات کا ایک بج چکا ہے۔ مجھے صبح دفتر جانا ہے۔ میرے دماغ کے اندر جو شور ہے وہ سنائی دے رہا ہے۔ یہ شور بھاگتے خون کا ہے جو شریانیں دماغ میں ہنگامی بنیادوں پر پہنچا رہی ہیں۔ رات کی خاموشی میں مجھے یہ شور سنائی دے رہا ہے۔ شور پس منظر میں جاتا ہے لیکن موجود رہتا ہے اور اچانک مشعال خان برآمد ہوتا ہے۔ میں فوراﹰ مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتا ہوں لیکن ہاتھ آگے بڑھا کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے ہاتھ آگے بڑھا کر غلطی کی ہے کیونکہ مشعال کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے میں یہ واضح محسوس کر سکتا ہوں کہ مشعال کے ہاتھ کی ہڈیا ں ٹوٹی ہوئیں ہیں۔ میں فوراﹰ ہاتھ نرم کر کے پیچھے کر لیتا ہوں کہ مشعال کو تکلیف نہ ہو۔ مشعال مسکراتا ہے اور کہتا ہے اب تکلیف نہیں ہوتی۔ میں خاموش ہوں۔ مشعال بول رہا ہے۔ میں سن رہا ہوں، سنا ہے تم بچوں کی نفسیات پر کام کرتے ہو؟ سنا ہے تم بچوں کی تربیت کے حوالے سے والدین کو آگہی دیتے ہو کہ ان کی تربیت مثالی کرو،  ان کے ساتھ سچ بولو،  یہ اگر کسی پر ہاتھ اٹھائیں تو ان کی سرزنش کرو،  یہ کسی کو گالی دیں تو انہیں ڈانٹو، انہیں سائنسی طرز فکر سکھاؤ، ان کے سوالات کے جوابات دے کر ان میں تنقیدی فکر کی حوصلہ افزائی کرو۔ کیا یہی سب تم سکھا رہے ہو؟ کیا یہی سب تم بتا رہے ہو؟

میں خوش ہوتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے مشعال میری تعریف کرنے لگا ہے۔ میں آنکھیں اٹھاتا ہوں  اور فخریہ مسکراہٹ چہرے پر سجاتا ہوں۔ ہاں ہاں مشعال میں یہ سب کرتا ہوں۔ جہاں مجھے موقع ملے میں یہ سب کرتا ہوں۔

مشعال میری طرف پراسرار انداز سے دیکھتا ہے، بہت دھیمے لہجے میں کہتاہے، ''تمہیں معلوم ہے تم ان بچوں کو کیا بنا رہے ہو؟ تم ان بچوں کو مشعال خان بنا رہے ہو۔ اس معاشرے میں مشعال خانوں کے انجام سے واقف ہو؟ دیانتدار، سچ بولنے والے اور تنقیدی فکر  لیے یہ بچے اس معاشرے میں کیسے زندہ رہیں گے؟ یہ سوچا ہے کبھی تم نے؟‘‘

میں لرز جاتا ہوں۔ میری قمیض پسینے میں بھیگی ہوئی ہے۔ مشعال خان جا چکا ہے۔ میرے اپنے بچے میرے پاس سوئے ہوئے ہیں۔ ان کے چہرے، میری آنکھوں میں آنسوؤں کی وجہ سے دھندلے ہو رہے ہیں۔