1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زندگی کیسے گزاریں؟ اگلے 66000 کلومیٹر میں فیصلہ کرہی لیجئے

9 مئی 2021

گاؤں کی اور شہر کی زندگی کی رفتار میں کافی فرق ہوتا ہے۔ گاؤں میں وقت گزرنے میں نہیں آتا جبکہ شہروں میں چوبیس گھنٹے قلیل لگتے ہیں۔ بعض اوقات دنوں ہفتوں کے حوالے سے ذہن میں ایک بائوٹا سا آ جاتا ہے کہ آج دن کونسا ہے؟

https://p.dw.com/p/3t5pS
تصویر: privat

جن قارئین کا تعلق دیہاتوں سے ہے اور ان کے کانوں میں ابھی تک جانوروں کے گلوں میں بندھی گھنٹیاں بجتی ہیں اور جن کے نتھنوں میں ابھی تک گھاس کی خوشبو ہے، ان کو یہ سمجھنے میں کسی طور دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کہ گاؤں کی اور شہر کی زندگی کی رفتار میں کافی فرق ہوتا ہے۔ گاؤں میں وقت گزرنے میں نہیں آتا۔ یہ وقت کیسے گزارا جائے؟ کا سوال دیہاتی پس منظر میں اہم ہو جاتا ہے جبکہ شہروں میں دن رات کے چوبیس گھنٹے قلیل لگتے ہیں۔ بعض اوقات وقت اس قدر تیز رفتار ہوتا ہے کہ دنوں ہفتوں کے حوالے سے ذہن میں ایک بائوٹا سا آ جاتا ہے کہ آج دن کونسا ہے اور مہینے میں کتنے دن باقی ہیں۔

ہر سال۔۔ دن اور رات چند گھنٹوں کی باہمی تجارت ضرور کرتے رہتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی اپنے دامن میں چوبیس گھنٹے ہی رکھتے ہیں۔ان گھنٹوں کے یکساں ہونے کے باوجود دیہاتوں میں وقت کی طوالت کا احساس کیوں ہوتا ہے اور شہروں میں وقت مٹھی میں ریت کی طرح ٹھہرتا کیوں نہیں ہے؟

ان سوالوں کی جانب جانے سے پہلے میرے ساتھ میرے گاؤں چلیے۔ آپ خاموش رہیے اور مناظر پر تبصرہ سنتے رہیے۔ گاؤں کے قریب کھیتوں میں گھروں کو ہماری طرف ڈھوکیں کہا جاتا ہے۔ مغرب کاوقت ہے ہر ڈھوک پر تندور تاپا جا رہا ہے۔خواتین اور مردوں کی رفتار قدرے تیز ہے کہ انہوں نے تمام امور کو سمیٹنا ہے۔ جانوروں کو باندھا جارہا ہے۔ مرغیوں کو پنجرے میں بند کرنے کے لیے ان کو اکٹھا کیا جا رہا ہے اور ان کے پیچھے ہوکا دے کر ان کی سمت پنجرے کی جانب کی جا رہی ہے۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویوں کے حامل چند مرغوں مرغیوں کو چھوڑ کر اکثریت بڑی سہولت سے پنجرے کی جانب جا رہی ہے۔ انسانی  بچے جن کھلونوں کو سمیٹ رہے ہیں یہ کھلونے آپ کو سادہ سے نظر آ رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ ان بچہ لوگوں کی کائناتیں ہیں۔ وہ اپنی ان کائناتوں کو محفوظ جگہ پر منتقل کررہے ہیں کہ مبادا رات کو کوئی کتا ان کی متاع حیات کو برباد نہ کر دے۔

اندھیرا ہو چکا ہے۔ سب لوگ مغرب کے فورا بعد ہی کھانا کھا چکے ہیں۔ وہ جو ایک ڈھوک نظر آ رہی ہے یہ میرے دوست کا گھر ہے۔ اور اگر آپ غور کریں تو میرا دوست ڈھوک کے پاس ہی کھیتوں میں کھلی جگہ پر چارپائیاں بچھا رہا ہے۔ یہاں پر ابھی دوسری ڈھوکوں سے دوست آنے ہی والے ہیں۔ یہاں رات گئے گپ شپ کا دور چلے گا۔

ایسا کب سے ہو رہا ہے؟ یہ سوال ان دیہاتی دوستوں سے نہ پوچھیے گا۔ مجھ سے پوچھیں گے تو کہوں گا کہ ان دوستوں کو بیس تیس سال سے یونہی دیکھ رہا ہوں۔البتہ ان دیہاتی دوستوں سے پوچھیں گے تو یہ پریشان ہو جائیں گے، ان کے نزدیک ان محفلوں کو برپا ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ کیونکہ ان کے آس پاس لینڈ سکیپ تقریبا ایک سی ہے اور تعمیرات بھی اس قدر نہیں ہوئیں کہ کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہو اور چارپائیوں کے پاس جو درخت ہیں وہ ان درختوں کو انہی شکلوں میں بچپن سے دیکھتے آئے ہیں اس لیے ان کے تخیل میں وقت طوالت اختیار کر گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت کا احساس یا تصور واقعات اور مادی اجسام میں ہونے والی تبدیلیوں کے مابین وقفوں کا نام ہے۔

ان پیچیدہ باتوں کو آخر پراٹھا رکھتے ہیں۔ تمام دوست آ چکے ہیں اور چارپائیوں پر نیم دراز ہو چکے ہیں۔کوئی بغل میں تکیہ داب کر بیٹھ گیا ہے اور کسی نے اپنے نزدیک چلم کر لی ہے۔ میں ان کے پاس جا کر ان کی گپ شپ کا احوال آپ کو دیتا ہوں۔

یہاں خاموشی ہے۔ طویل خاموشی ہے۔ حشرات الارض کی آوازوں کو علیحدہ علیحدہ سن سکتا ہوں۔ خاموشی اتنی ہے کہ لگتا ہے ان حشرات الارض نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ شاید یہ طویل خاموشی کا اثر ہے کہ میرا ذہن حشرات الارض کی تفص یلات میں کھوتا چلا جا رہا ہے۔ خاموشی ایسی ہے کہ اگر یہ حشرات الارض تھوڑی دیر کے لیے چپ کر جائیں تو شاید میں اپنی رگوں میں دوڑتے پھرتے لہو کی آواز بھی سن لوں۔خاموشی ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دوست بولیں گے ضرور۔ اصل میں یہ ایک ایسی محدود سی دنیا ہے جس میں بہت محدود واقعات ہوتے ہیں۔ جبکہ ایسے واقعات جن میں حیرت چھپی ہو وہ تو بہت ہی کم ہوتے ہیں اور ان واقعات کو یہاں اتنی دفعہ دہرایا جا چکا ہے اور ہر ممکنہ زاویے سے ان پر روشنی ڈالی جا چکی ہے کہ اب مزید کچھ کہنے کو رہ نہیں گیا۔

اوہ سنیے سنیے یہاں ایک چارپائی پر نیم دراز ایک دوست نے 'کھنگورا' لیا ہے اس نےگلاصاف کیا ہے۔ قیاس ہے کہ یہ ضرور بولے گا۔یہ بول رہا ہے۔کہہ رہا ہے۔۔ملکو(ملک قوم کی جمع) بات یہ ہے کہ۔

پھر خاموشی ہو گئی ہے۔ لیکن یقین کیجئے یہ ضرور آگے بولے گا کیونکہ اس نے فقرے کا ابتدائیہ بول دیا ہے۔ اس کے جملہ شروع کرتے ہی ایک دو دوستوں نے چارپائیوں پر پہلو بدلے ہیں۔ حشرات الارض کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ہاں اس نے بولنا شورع کیا ہے کہہ رہا ہے

۔۔۔اس دفعہ لگتا ہے۔۔۔

پھر خاموشی۔۔۔۔اصل میں یہ خاموشی مجھے اور آپکو الجھن میں ڈال رہی ہے وگرنہ اس کے سامعین کو کو ئی پرواہ نہیں وہ قیامت تک انتظار کر سکتے ہیں۔۔ٹھہریں ۔۔وہ کہہ رہا ہے کہ۔۔۔ بارشیں وقت پر ہوئی ہیں اس لیے مونگ پھلی اچھی ہو گی۔۔

جواب میں ایک دوست نے پہلو بدلتے ہوئے کہا ہے کہ۔۔تم نے پچھلے سال بھی یہی بکواس کی تھی۔۔۔ایک اور نے لقمہ دیا ہے۔۔۔ہے ہی یہ کالی زبان

ایک اور طویل خاموشی کا وقفہ۔۔۔لیکن اب یہ رات ڈھلنے تک گفتگو چلتی رہے گی۔ وقفے کبھی طویل ہوں گے کبھی مختصر لیکن یہ باتیں ہوتی رہیں گی۔

 اگر آپ دیہاتوں میں راتوں کو ہونے والی اس گپ شپ کو سنیں تو پہلی بات جو آپ کو حیرت زدہ کرے گی وہ ان کی انتہائی ترقی یافتہ حس مزاح ہے۔ اگر آپ ان کے زمینی محاورے کو سمجھ جائیں تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائیں۔

مزاح ذہانت کی علامت ہے۔ مزاح ایک بہترین نفسیاتی مدافعتی نظام ہے۔ معیاری مزاح کی تخلیق وقت مانگتی ہے۔ خاموشی کے طویل وقفے مانگتی ہے۔ اور یہ وقفے ان کے پاس وافر ہیں۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دنیا بھر کے دانشوروں اور ادیبوں کی اکثریت کا تعلق دیہاتوں سے رہا ہے؟

آئیے شہر چلتے ہیں۔ مجھے دفتر آنے جانے اور دوسرے ضروری کام نمٹانے کے لیے اوسطا دو سے تین گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے۔ شہر کے اندر سفر توجہ مانگتا ہے۔ دوران ڈرائیونگ بہت قریب سے گزرتی دوسری گاڑیوں کو بچانے کے لیے مجھے اپنی ساری توجہ سڑک پر مرکوز رکھنی ہے۔ اگر بالفرض میں ڈرائیونگ نہیں بھی کر رہا تو شہروں میں مارکیٹنگ کی خاطر ایسے بورڈ جگہ جگہ نصب ہیں جو میری توجہ کھینچتے ہیں۔ یہ بورڈ توجہ کھینچنے کے جدید نفسیاتی اصولوں پر بنائے گئے ہیں۔ مسلسل ہارن اور دوسرا شور کانوں کے ذریعے دماغ کے ریلے سٹیشن تھیلمس میں ادھم مچائے ہوئے ہے۔ تھیلمس پریشان ہے کہ ایک ہی وقت میں ہزاروں فریکونسیز میں کس کو اہم سمجھ کر اعلی عقلی خانے میں بھیجنا ہے اور کس کو رد کرنا ہے۔

میں روزانہ تین گھنٹے ایسے ہی گزارتا ہوں۔ ان تین گھنٹوں سے اعصاب اور جسم دونوں تھک جاتے ہیں۔ مجھے ان دونوں کو نارمل رکھنے کےلیے مزید دو سے تین گھنٹے چاہییں۔ میری شہری زندگی میں پانچ سے چھ گھنٹے اس غیر پیداواریت کی نظر ہو جاتے ہیں۔دیہاتی زندگی کی نسبت مجھے پانچ سے چھ گھنٹوں کے خسارہ کا سامنا ہے۔ پیچھے بچ جانے والے سولہ گھنٹوں میں میں نیند پوری کروں؟ گھر کے کرائے سمیت دوسری ضروریات اشیاء کی فکر کروں؟ نوکری کاروبار اور ان سے متعلقہ مسائل سے نمٹوں؟ گلیوں میں مجرموں سے اپنے آپ کو بچاؤں؟ بچوں کی تعلیم اور تعلیم سے متعلقہ اخراجات پر پریشان ہوں؟ یا ۔ ادب عالیہ تخلیق کروں اور زندگی سے لطف اٹھاؤں؟

آپکو اوپر دیہاتوں میں ہونے والی گفتگو یا ایک منظر دکھایا ہے یہاں شہروں میں گفتگو کچھ اور انداز میں کی جاتی ہے۔یہاں وقت کی کمی کا احساس ہر وقت دماغ پر چھایا رہتا ہے۔ وقت کی اس کمی کے احساس کی وجہ سے میں سننے کی صلاحیت سے محروم ہو چلا ہوں۔ میں اس قلیل وقت میں دوسروں کی سن کر وقت 'ضائع' نہیں کرنا چاہتا بلکہ میں اس قلیل مدت میں صرف بولنا چاہتا ہوں۔لیکن میں جس کو بول کر سنانا چاہتا ہوں وہ بھی میری طرح سننا نہیں صرف سنانا چاہتا ہے۔ اگر کبھی وہ بولنا شروع کر دے اور مجھے سننا پڑ جائے تو میری توجہ اس کی باتوں پرنہیں ہوتی بلکہ میں اس وقفے کی تلاش میں رہتا ہوں کہ وہ ایک لمحے کے لیے سانس لینے رکے اور میں سانس لینے کے وقفے کا فائدہ اٹھاؤں اور بات کو اچک لوں۔ میں جب دیہات میں جاتا ہوں تو بہت خوش ہوتا ہوں وہاں سب سننے والے ہیں۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ سناؤ ملک کے کیا حالات ہیں؟  اور میں مشین کی طرح شروع ہو جاتا ہوں۔ مجھے ڈر ہوتا ہے کہ کوئی اور نہ بول پڑے لیکن ایک سے دو گھنٹہ کے خطاب کے بعد میں اپنے آپ کو احمق محسوس کرتا ہوں ۔ مجھے مسلسل اپنی ہی آواز کو لگاتار سن کر عجیب سا لگتا ہے۔ میں خاموش ہو جاتا ہوں۔فیصلہ کرتا ہوں کہ خاموشی اختیار کر لوں۔ لیکن ایسے میں ایک اور ستم ظریف کہتا ہے۔۔پھر کیا سمجھتے ہیں یہ ملک کیسے ٹھیک ہو گا؟۔۔اور میں چابی والے باندر کی طرح پھر بھاں بھاں شروع کر دیتا ہوں۔ 

آئیے معاملات وقت کو سمجھنے کے لیے گلگت بلتستان کی سیر کو چلتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے لیے قراقرم ہائی وے کا طویل سفر درپیش ہوتا ہے۔ چلاس کو عبور کرنےکے بعد بقول مستنصر حسین تارڑ آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ کے بچے بھی ہیں آپ نے کریڈٹ کارڈ کا بل بھی دینا ہے، گھر کا کرایہ دودھ کابل، گاڑی کی مرمت سمیت تمام وہ مسائل جو آپ کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں آپ بھول جاتے ہیں۔ ٹریک سے واپس آتے ہیں اور واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں اور جیسے ہی چلاس کا قصبہ عبور کرتے ہیں آپکو متذکرہ بالا فہرست یاد آنا شروع ہو جاتی ہے۔ 

ٹور پر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آپکی توجہ کا دائرہ بہت محدود ہے۔ توجہ کا یہ دائرہ دلچسپی کی چند چیزوں سے بھر جاتا ہے۔ ٹور پر حیرت انگیز مناظر آپ کی توجہ کو مکمل طور پر فتح کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے اگر آپ کو اپنی شہری زندگی کے خدوخال یاد بھی آئیں تو اجنبی سے لگتے ہیں اور جلد ہی کوئی اور منظر یا کسی دوست کا قہقہہ اس یاد کو بھی آپکی توجہ کے دائرے سے باہر پھینک دیتا ہے۔ٹور میں حیرت انگیز مناظر اور واقعات کی بھرمار کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے دماغ اپنی پوری توانائیاں صرف کر دیتا ہے۔ 

شہری زندگی کی برق رفتاری ہمارے دماغ اور بالخصوص توجہ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ہم نے لاکھوں برس زندگی کسی اور طرح بسر کی ہےلیکن لاکھوں سالوں کے اس سفر میں گزشتہ ایک سو سال بےحد مختلف ہو گئے ہیں۔ وقت اسی رفتار سے گزر رہا ہے لیکن ہمارا طرز زندگی مختلف ہو گیا ہے۔ اس مختلف طرز زندگی نےہمیں ایک ہراس (پینک) میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پوری دنیا کی وہ تمام منفی خبریں جو مجھ سے متعلق نہ بھی ہوں میرے علم میں آکر بے چینی میں اضافہ کر رہی ہیں۔

آپ کے لیے یہ بات شاید اس قدر حیرت انگیز نہ ہوں کہ سائنس فلسفہ و ادب عالیہ میں حیرت انگیز کارنامے تنہائی کی پیداوار ہیں۔ سائنسی دریافتوں کو ہی لیجئے یہ اعلی تخیلاتی صلاحیت کی دین ہیں۔ کیا نیوٹن کے 'تھاٹ ایکسپیریمینٹس' اور آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت اپنی ابتدائی بنیادوں میں اعلیٰ تخیلاتی صلاحیتوں کا مظہر نہیں ہیں؟ کیا دنیا کے مقبول ترین مذہبی نظریات اپنی بنیادوں میں تنہائی کی پیداوار نہیں ہیں؟ کیا تمام مذہبی پیشواؤں اور فلسفیوں نے حقیقت کی کھوج حاصل کرنے لے لیے خود ساختہ تنہائی اختیار نہیں کی؟

کیا یہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ محبت جیسا انمول تجربہ مکمل یکسوئی مانگتا ہے۔ محبت آپ کی توجہ پر سو فیصد تصرف چاہتی ہے کہ دنیا کے تمام معاملات کو وہ اپنا رقیب سمجھتی ہے۔

یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم نے اپنی حیاتیاتی حدود میں رہتے ہوئے زندگی سے زیادہ سے زیادہ افادہ حاصل کرنا ہے یا ہم نے زندگی ہراس میں گزارنی ہے؟ ہم نے اپنے بچوں کی پرورش ایسے کرنی ہے کہ وہ اس محدود زندگی میں زیادہ سے زیادہ لطف حاصل کریں یا ان کو ایک سطحی دوڑ کا حصہ بنانا ہے؟ یہ فیصلہ کرنا آپ کے لیے اہم ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ قیمتی وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ اس مضمون کو جب آپ نے پڑھنا شروع کیا تھا تو آپ کی زمین ملکی وے کہکشاں میں جس جگہ پر تھی وہاں سے 220 کلو میٹر فی سیکنڈ کا سفر کرتے ہوئے 66000 کلومیٹر کا سفر طے کر چکی ہے۔ اس سے پہلے کہ زمین اگلے پانچ منٹ میں مزید 66000 کلومیٹر کا سفر طے کر لے اور اس مقام پر آپ کو دوبارہ آنے میں دو ارب سال سے زائد عرصہ کے لیے انتظار کرنا پڑے آپ یہ فیصلہ کر ہی لیں کہ آپ نے زندگی کس طور گزارنی ہے؟