1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ شخصیت کے حامل مولانا صوفی محمد کا انتقال

فریداللہ خان، پشاور
11 جولائی 2019

کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا ‌صوفی محمد 94 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ مولانا صوفی محمد افغانستان اور پاکستان میں اپنے مذہبی اور سیاسی کردار کے باعث متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے تھے۔

https://p.dw.com/p/3LuyE
Maulana Sufi Mohammad Kleriker Pakistan Pro-Taliban
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

مولانا صوفی محمد کے خاندانی ذرائع کے مطابق انہیں آج جمعرات 11 جولائی کو ان کے آبائی ضلع دیر میں دفن کیا گیا۔

صوفی محمد نے ابتدائی تعلیم ضلع صوابی کے پنج پیر نامی علاقے میں ایک دینی مدرسے سے حاصل کی۔ بعد ازاں جماعت اسلامی سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم ہی سے انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔

بعد ازاں اختلافات کی وجہ سے انہوں جماعت اسلامی چھوڑ کر ملاکنڈ ڈویژن میں عدالتی نظام کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملا کر شرعی نظام کے نفاذ کے لیے 'تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ کے نام سے اپنی ایک تنظیم قائم کی، جس بعد میں کالعدم قرار دے دیا گیا۔

اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ملاکنڈ ڈویژن میں ایک ماہ تک احتجاجی کیمپ لگا کر مرکزی اور صوبائی حکومتی اداروں کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ صوبائی حکومت نے اس دوران ان سے معاہدہ کیا اور اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے علاقے میں شرعی نظام نافذ کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ تاہم اس کے باوجود صوفی محمد اور ان کے ساتھی مطمئن نہ ہوئے اور انہوں ایک بار پھر احتجاج شروع کیا۔ سن 1994 میں ان کی تنظیم نے پرتشدد کاروائیاں شروع کر دیں جس پر حکومت نے ان کے کئی ساتھیوں کو گرفتار بھی کیا۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکی افواج افغانستان پہنچ گئیں۔ اس دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہو گئی جس پر مولانا صوفی محمد نے پاکستان سے دس ہزار لوگوں کو ساتھ لے کر افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف 'جہاد‘ شروع کیا۔ تاہم کچھ ہی عرصے بعد جب وہ اپنے ساتھیوں سمیت پاکستان کے کرم ایجنسی کے راستے پاکستان داخل ہو رہے تھے، تو انتظامیہ نے انہیں گرفتار کر لیا۔ وہ ایک عرصے تک خیبر پختونخوا کی مختلف جیلوں میں بند رہے۔

کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے انہیں سن 2008 میں رہا کیا گیا تھا۔ تاہم ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد انہیں پھر سے گرفتار کر کے ان کے خلاف دہشت گردی سمیت متعدد مقدمات درج کر دیے گئے تھے۔

اس دوران حکومت نے ان کی تنظیم کو کالعدم قرار دے دیا۔ مولانا صوفی محمد کے خلاف مقدمات میں ان کے خلاف ناکافی ثبوتوں کی بنا پر انہیں سن 2017 میں رہا کردیا گیا تھا۔ صوفی محمد رہائی کے بعد زیادہ تر پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہے۔ وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔

ان کے اپنے داماد اور کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ فضل اللہ کے ساتھ مبینہ اختلاف کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ صوفی محمد کا اس وقت موقف تھا کہ فضل اللہ اسلام کی خدمت نہیں کر رہے۔