1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماہنامہ ’ہیرالڈ‘ کی بندش: ’شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘

شیراز راج
22 جولائی 2019

پاکستان کے ترقی پسند اور جمہوریت نواز حلقے پیشہ ورانہ دیانت اور اصول پرستی کے علمبردار انگریزی ماہنامہ ’ہیرالڈ‘ کی بندش کو زبان بندی کے فاشسٹ ہتھکنڈوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3MUbD
Screenshot | Website des Herald Magazin aus Karachi Pakistan
تصویر: herald.dawn.com

ماہنامہ ہیرالڈ کا پہلا شمارہ 1969 میں جاری ہوا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب آئین سازی، منصفانہ انتخابات اور معاشی انصاف کے مطالبات کی پاداش میں سیاست دانوں کو پابند سلاسل کیا جا رہا تھا۔ ریاستی ڈھانچہ اور فیصلہ سازی پر سویلین بالادستی کا نعرہ لگانے والوں کو بھارت کا ایجنٹ اور غدار وطن قرار دیا جا رہا تھا۔ نام نہاد 'حب الوطنی‘ اور ' قومی اتفاق رائے‘ نے غیر جانبدار اور آزادی رائے پر مصر ذرائع ابلاغ کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ ماہنامہ ہیرالڈ کے بانی صحافیوں نے ان معدودے چند سر پھروں کی آواز بننے کا فیصلہ کیا، جو یہ کہنے کی جرات کر رہے تھے کہ طاقت کے گھمنڈ میں عوام کے جمہوری حقوق کو غصب کرنا وطن دشمنی ہے۔

ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پاکستانی قوم سقوط ڈھاکہ کے صدمہ، بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ہزیمت اور برادر کشی کے اجتماعی احساس جرم کا شکار تھی۔ یہ قوم 'بچی کھچی‘ مملکت خداداد کے اس خواب فروش کی طرف دیکھ رہی تھی ، جس نے آئین کی سربلندی، قانون کی بالادستی، معاشی مساوات، سماجی استحکام اور احترام آدمیت جیسے آفاقی آدرشوں کو 'روٹی، کپڑا اور مکان‘ کے نعرہ میں لپیٹ کر الیکشن جیتا تھا۔ یہ ہزیمت، پچھتاوے، خجالت،۔۔۔۔اور دوسری طرف،۔۔۔۔'دھول سے ماتھا اٹھانے‘ کا دور تھا۔ ہر کوئی خود سے پوچھتا پھر رہا تھا کہ، 'وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے‘، اور 'خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘۔

ماہنامہ ہیرالڈ کی بانی ایڈیٹر، لیجنڈری صحافی رضیہ بھٹی تھیں، جن کی ٹیم میں آج کے سینئر صحافی زاہد حسین بھی تھے۔ زاہد حسین کے مطابق، ''ماہنامہ ہیرالڈ کی بندش ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس نے فوجی آمر ضیا الحق کے استبدادی قوانین کے خلاف آواز اٹھائی، جس کی پاداش میں ہر ماہ اس کے کئی صفحات خالی شائع ہوتے تھے۔ جرنل ضیا الحق نے ایک پریس کانفرس میں ہیرلڈ کی کاپی لہراتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس قسم کی صحافت کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے زاہد حسین نے کہا، ''ڈان لیکس کے نتیجہ میں ریاست کے زیر عتاب آنے کے بعد ڈان گروپ کا مالی بحران بہت شدید ہو گیا تھا۔ تنخواہوں میں تیس فیصد کٹوتیاں کی گئیں۔ حکومت اور نجی دونوں شعبوں سے ہونے والی آمدن رک گئی۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں زاہد حسین نے کہا کہ سنجیدہ جریدوں کے لیے پوری دنیا میں مسائل بڑھ رہے ہیں۔ بقا کی اس جدوجہد میں ایک جریدے کو ہمہ وقت تبدیلی سے گزرنا پڑتا ہے اور شاید ہیرالڈ ایسا نہیں کر سکا۔

پاکستانی میڈیا کا بحران، صحافی ’بھوکے مر رہے‘ ہیں

ہیرالڈ سے وابستہ رہنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ضیغم خان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''یہ ایک عالمی سطح پر شہرت یافتہ جریدہ تھا۔ اس نے حق گوئی اور پیشہ ورانہ دیانت داری کے معیار قائم کیے۔ اس نے فوجی آمروں کو ناراض کیا، کراچی کی ایک انتہائی طاقتور سیاسی جماعت کو نالاں کیا، مذہبی انتہا پسندوں کو زچ کیا اور ہمیشہ جمہوریت، انسانی حقوق اور سیاسی آزادیوں کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں کا ساتھ دیا۔ یہ محض جریدہ نہیں بلکہ ایک روایت اور ورثہ تھا۔ بدقسمتی سے ہم ایسے دور میں آ گئے ہیں کہ اس نوعیت کے اجتماعی ورثے باعث فخر نہیں رہے بلکہ بوجھ بن گئے ہیں۔‘

ڈی ڈبلیو اردو نے ہیرالڈ کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی بدر عالم سے بھی گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا، ''پاکستان میں شہری و انسانی حقوق کی جدوجہد کو آواز دینے والی ایک انتہائی توانا آواز خاموش ہو گئی ہے۔ ماہنامہ ہیرالڈ نے ابتدا میں ہی کچھ راہنما اصول طے کر لیے تھے، جن پر وہ آخر تک قائم رہا۔‘‘

ڈی ڈبلیو اردو نے ان راہنما اصولوں کے بارے میں استفسار کیا تو ان کا جواب تھا، ''سب سے پہلے تو جمہوریت، جمہوری اصولوں اور جمہوری حقوق کی دو ٹوک اور بلا خوف حمایت، دوسرے حقوق نسواں کی وکالت اور صنفی مساوات کی جدوجہد کرنے والے افراد اور تنظیموں کی اعانت، تیسرے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی آواز اٹھانا اور چوتھے، پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی غیر مشروط آزادی کی جدوجہد۔‘

ہیرالڈ کی بندش کے فیصلہ کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے بدر عالم کا کہنا تھا، ''ہمارے ملک میں جمہوری آزادیوں کی گنجائش ختم ہو رہی ہے۔ صرف ریاست اور حکومت نہیں بلکہ معاشرے میں بھی عدم برداشت کا رویہ انتہائی سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ اختلاف رائے کرنے والوں کو سماج دشمن اور غدار وطن کہا جا رہا ہے۔ وہ ماحول نہیں رہا، جس میں ایک ترقی پسند اور لبرل رجحانات کے حامل جریدے کو برداشت کیا جائے۔ اس وقت پاکستان میں سنسر شپ اور زبان بندی کا وہ عالم ہے کہ مالکان کے لیے صحافت کی آزادی پر اصرار کے نتیجہ میں ہونے والا مالی نقصان ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔‘‘

انگریزی ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کے مدیر اور معروف صحافی نجم سیٹھی کے مطابق، ''پاکستانی صحافت 'بڑے بھائی‘ کے بھاری بوٹوں تلے کچلی جا چکی ہے اور اب یہ عالم ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے صحافیوں کے گھروں میں دراندازی کرنے اور انہیں سمجھانے بجھانے کی ذمہ داری اٹھا لی ہے۔ بعض اوقات سوشل میڈیا ناقدین کو 'غائب‘ کر دیا جاتا ہے تاکہ ہر کوئی سبق سیکھ سکے۔ بدترین بات یہ ہے کہ صحافیوں کو وطن دشمن قرار دے کر ملک بھر میں ان پر غداری کے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ میڈیا مالکان 'پریشان کن‘ صحافیوں کو نوکریوں سے برخاست کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ان کے بیانات پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ صحافیوں کے احتجاجی مظاہروں کی کوریج ان کے اپنے ادارے ہی نہیں کرتے۔‘‘

اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کا کہنا تھا کہ ''پاکستان میں خوف و ہراس کی ایسی فضا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس وقت ایک بدترین غیر اعلانیہ سینسرشپ نافذ ہے۔ اب تو کوما اور فل سٹاپ پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ ٹی وی چینلوں کو اپوزیشن کی کوریج پر بند کر دیا جاتا ہے۔ مثبت رپورٹنگ کے نام پر حقائق کا بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ مزاحمت کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور ان کی سرکاری سرپرستی میں کردار کشی کی جاتی ہے۔ ان حالات میں ماہنامہ ہیرالڈ کا بند ہونا پاکستان میں آزادی صحافت کی تحریک کا ایک عظیم نقصان ہے۔‘‘