ماحولیاتی تبدیلی مہاجرین کے بحران کا نیا سبب؟
8 نومبر 2017جرمن شہر بون میں میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی کانفرنس جاری ہے۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے محض چند روز قبل امریکی فوج کے ماہرین کی تحقیقات پر مبنی ایک رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں آئندہ برسوں کے دوران شامی مہاجرین کی تعداد سے بھی زیادہ انسانوں کو ہجرت پر مجبور کر سکتی ہیں۔
اٹلی: گزشتہ پانچ برسوں میں کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟
مہاجرین کی سستی لیبر سے منافع کمانے والی یورپی کمپنیاں
’انوائرنمینٹل جسٹس فاؤنڈیشن‘ (یا ای جے ایف) نامی ادارے نے بون میں ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں جاری کانفرنس کے شرکا سے مطالبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ممکنہ ہجرت کے تدارک کے لیے بھی جلد از جلد عالمی سطح پر اقدامات کیے جانے پر اتفاق کیا جائے۔
اس رپورٹ میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے ممکنہ طور پر انتہائی برے اثرات اور ان کے باعث ان خطوں سے مزید انسانوں کی ہجرت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے ہی سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام کو گزشتہ نو سو برسوں میں بدترین قحط کا سامنا بھی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر شام میں خانہ جنگی نہ بھی ہوتی تو بھی ان برسوں کے دوران اب تک ایک ملین سے زائد شامی باشندے قحط کے سبب ہجرت پر مجبور ہو چکے ہوتے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث انسانوں کی ممکنہ ہجرت سے متعلق اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کئی ترقی پذیر ممالک کے علاوہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والے انسان بھی سمندری طوفانوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والی دیگر قدرتی آفات کے باعث ہجرت کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
ای جے ایف سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی فوج کے جنرل اسٹیفن اے چینی کا کہنا تھا، ’’ہم طویل دورانیے میں انسانی تہذیب کے وجود کو لاحق خطرات کی بات کر رہے ہیں اور مختصر مدت میں لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے جس سطح پر انسانی ردِعمل درکار ہو سکتا ہے، اس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ہے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر یورپ سمجھ رہا ہے کہ اسے آج ’مہاجرین کے شدید بحران کا سامنا ہے تو انتظار کیجیے جب اگلے بیس برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیاں افریقہ میں بسنے والے انسانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیں گی‘۔
’لیبیا کے ساحلی محافظ سمندر میں مہاجرین کی ہلاکت کے ذمہ دار‘