1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لنڈی کوتل، سترہ افراد پکنک منانے کے دوران اغوا

مدثر شاہ
5 ستمبر 2017

عید الاضٰحی کے موقع پر لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے سترہ افراد کو اس وقت اغوا کر لیا گیا، جب وہ قریبی پہاڑیوں پر پکنک منا رہے تھے۔ ابھی تک اغوا کاروں کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہو سکا ہے۔

https://p.dw.com/p/2jOXy
Pakistan | 17 Picnicker in Khyber Agency entführt
تصویر: privat

پہاڑوں کے درمیاں واقع مٹی سے بنے ہوئے حُجرے میں لوگوں کا تانتا بنا ہوا ہے۔ یہ حُجرہ ولی مُحمد کا ہے، جس کے خاندان کے سات افراد کو گزشتہ روز مُسلح دہشت گرد نے اغوا کیا ہے اور شک ہے کہ وہ انہیں اپنے ساتھ افغانستان لے گئے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اغوا کاراپنی شرائط منوانے کی کوشش کریں گے۔ کوئی بھی شخص نام نہیں بتانا چاہتا کیونکہ اِنہیں ڈر ہے کہ کہیں اِن کی بات اغواکاروں  تک نہ پہنچ جائے اور اُن کے پیاروں کو کوئی نقصان ہو۔

عید قرباں پر لنڈی کوتل کے لوگ پکنک منانے کے لیے پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں جہاں قدرتی چشمے ہیں۔ شنواری قبیلے سے تعلق رکھنے والے 17 افراد جِن میں چار کی عُمریں سولہ سال سے کم ہیں، نے عید کے دوسرے دن قریبی پہاڑوں پر"بڑی بیگیٹ" نامی جگہ پر پکنک منانے کا پروگرام بنایا۔ یہ تمام آپس میں رَشتہ دار بھی ہیں۔

یرغمال سابق افغان صوبائی گورنر واحدی صوابی سے بازیاب

طالبان کی قید میں گزرے دنوں پر کتاب

افغان فورسز نے دو مغوی پاکستانی سفارتی اہلکار بازیاب کرا لیے

ولی مُحمد  کے خاندان کے سات افراد بھی مغویوں میں شامل ہیں
تصویر: privat

 تفصیلات کے مطابق چار بجے کے قریب جب کھانا تیار ہو گیا تو تو پہاڑوں میں پہلے سے تاک لگائے دس سے زائد مُسلح افراد ان کے پاس آئے، اِن کے ساتھ کھانا کھایا اور کافی دیر تک بیٹھے رہے اور علاقے کے مسائل پر گپ شپ کی۔ کُچھ دیر بعد مُسلح افراد نے اِن سے کہا کہ قریب ہی اُن کا امیر پہاڑوں میں موجود ہے اور اِن لوگوں سے ملنا چاہتا ہے۔ مُسلح افراد نے اپنے امیر سے ملنے پر زور دیا تو کوئی ایک بھی اِنکار نہ کر سکا اور مسلح افراد ان سب کو افغانستان کے پہاڑوں کی طرف لے گئے۔

اِن سترہ میں مہربان خان شینواری بھی شامل تھے جو مُسلح افراد کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ اِطلاع ملتے ہی سکیورٹی  اداروں کے اہلکاروں نے پہاڑی سلسلے میں سرچ آپریشن شروع کیا لیکن ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی جب کہ ذرائع کے مطابق مہربان خان کو سیکیورٹی اہلکار مزید تفتیش کے لیے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

لنڈی کوتل کے یہ پہاڑی سلسلے افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع اچین تک پھیلے ہیں، جسے افغانستان میں داعش کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف میں شنواری قبیلہ آباد ہے جب کہ پاکستان کے سرحدی علاقہ میں آفریدی قبیلہ بھی آباد ہے۔

آپریشن خیبر فور: مقامی لوگ کیا کہتے ہیں؟

ڈی ڈبلیو کو نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر ذرائع نے بتایا کہ اغواکاروں میں چند ایک پشتو کے آفریدی لہجے میں بات کر رہے تھے۔ آفریدی قبیلہ پاکستان کی تحصیل لنڈی کوتل کے سرحدی علاقہ میں آباد ہے جہاں دہشت گردوں کے خلاف گزشتہ چند سالوں سے پاک فوج نے کئی ایک آپریشن کئے ہیں۔ یاد رہے کہ لشکرِ اِسلام اور انصارُالاِسلام تنظیموں کے سربراہان کا تعلق آفریدی قبیلے سے ہیں۔

افغان فورسز نے دو مغوی پاکستانی سفارتی اہلکار بازیاب کرا لیے

علی حیدر گیلانی 3 سال بعد گھر پہنچ گئے

مقامی صحافی علی شنواری کے مطابق اغواکار علاقے کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے ساتھ ساتھ آپریشن ضربِ عضب اور راجگِل آپریشنز کے بعد اِس علاقے میں اپنی موجودگی ظاہر کرنا چاہتے ہیں، جس میں وہ بالکل کامیاب ہوئے ہیں۔

فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں نے بڑی بیگیٹ کے علاقے سے دو درجن سے زائد نوجوانوں کو حراست میں لیا جبکہ اغوا شدگان کے گاؤں کے ارد گِرد سرچ آپریشن بھی جاری ہے۔