1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور:عورت مارچ میں خواتین کی بھرپور شرکت

8 مارچ 2020

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ہونے والے عورت مارچ میں ہزاروں خواتین نے شرکت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

https://p.dw.com/p/3Z3V5
Pakistan Internationaler Frauentag | Aurat-Marsch
تصویر: DW/T. Shahzad

مارچ کے شرکاء ہزاروں کی تعداد میں لاہور پریس کلب کے باہر جمع ہوئے اور ایجرٹن روڈ پر مارچ کرتے ہوئے ایوان اقبال تک گئے۔ اس مارچ میں شرکت کرنے والوں میں غیرسرکاری تنظیموں سے وابستہ خواتین، سیاسی جماعتوں کے ویمن ونگز کے ارکان، انسانی حقوق  کی تنظیموں کی کارکن، عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین کے علاوہ فنکاروں، عام عورتوں اور طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مارچ کے شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں رنگ برنگے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ان کے مطالبات درج تھے۔ اس موقع پر مارچ میں شریک خواتین 'ہم چھین کے لیں گے آزادی، ہر ظلم سے لیں گے آزادی، کاروکاری سے لیں گے آزادی، اور ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔

ماں، بہن اور بیٹی، کیا صرف آپ کی ہی قابل احترام ہے؟

لاہور میں ہونے والےعورت مارچ کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ مارچ کے راستے میں آنے والی سڑکوں کو بند کر دیا گیا تھا اور مسلح پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد سیکورٹی پر مامور کی گئی تھی۔ مارچ کے شرکاء کو واک تھرو گیٹس سے گزارا گیا اور میٹل ڈیٹیکٹرز سے مشکوک افراد کی تلاشی بھی لی گئی۔

مارچ کے شرکا نے ایک کلومیٹر کا مارچ تقریبا ڈھائی گھنٹے میں مکمل کیا۔ اس مارچ میں تقریبا ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شرکت کی لیکن انگریزی تعلیمی اداروں کی طالبات کی شرکت کافی نمایاں تھی۔ مارچ میں برقعہ پوش خواتین بھی نظر آئیں، جبکہ ترقی پسند مردوں کی بھی ایک معقول تعداد نے شرکت کی۔ مارچ میں شریک خواتین، نوجوان اور فنکار اس موقع پر اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرتے رہے۔ ایک لڑکی نے وائیلن بجا کر شرکا کو محظوظ کیا جبکہ ایوان اقبال کے باہر اسٹریٹ تھیٹر بھی پیش کیا گیا۔

عورت مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ عورت مارچ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں استحصال سے پاک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جائے جس میں عورتوں کو تحفظ حاصل ہو اور انہیں روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولتیں بغیر کسی امتیاز کے میسر ہوں۔ انہوں نے خواتین کی کم از کم تنخواہ چالیس ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ دیہاڑی دار مزدور خواتین سمیت کام کی تمام جگہوں کو انسداد حراسگی قوانین کے ذریعے تحفظ دیا جائے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔

عورت مارچ: اب بھی مشکلات ومخالفت کا شکار

اس سے پہلے لاہور میں ماڈل ٹاون سے لے کر جوہر ٹاون تک خواتین نے ایک سائیکل ریلی بھی نکالی۔ اس موقع پر خواتین کا کہنا تھا کہ معاشرے کی ترقی میں عورت کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کیے جانا چاہییں۔

اس سے پہلے لاہور میں منعقدہ عالمی یوم خواتین کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید قانون سازی کی جارہی ہے۔ ان کے مطابق خواتین کی بہتری کے لیے ہر روز کام کرنے کی ضرورت ہے نا کہ صرف خواتین کے عالمی دن کے موقع پرہی ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے لاہور میں منعقدہ عالمی یوم خواتین کی تقریب سے خطاب کے دوران کہا، ''آج کا دن ہم سب کو اپنی ماؤں کو سلام کرنے کا دن ہے، آج خوش قسمتی سے پاکستان بدل رہا ہے، نئے پاکستان میں خواتین کو ان کے تمام حقوق ملیں گے۔‘‘

’میرا جسم میری مرضی‘

فردوس عاشق اعوان نے اس دوران مقبوضہ کشمیر کی خواتین سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا، '' کشمیر کی بیٹیوں کا ذکر کر کے آج ہمیں دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنا ہے، انسانی حقوق کے ادارے کشمیر کی بیٹیوں کے حقوق پر خاموش ہیں، بھارتی جارحیت عروج پر ہے، ہمیں دختران کشمیر کا مسئلہ اٹھانا ہے۔‘‘

دوسری طرف تکریم نسواں کے نام سے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی ایک ریلی نکالی۔ اس ریلی میں شریک خواتین کا کہنا تھا کہ اسلام نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے واضح احکامات دیے ہیں، ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے مغربی کلچر کو پاکستان میں رائج کرنے کی مذمت کی۔