1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولپاکستان

لاہور کی آب و ہوا، میتھین گیس کی مقدار میں پریشان کن اضافہ

11 اگست 2022

سائنسدانوں نے لاہور کے سیٹلائٹ ڈیٹا کا جائزہ لیا ہے۔ اس شہر کی ہوا میں میتھین گیس کی سطح اندازوں سے بھی کہیں زیادہ تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، جو انسانوں اور ماحول دونوں کے لیے ہی نقصان دہ ہے۔

https://p.dw.com/p/4FQ1h
Pakistan | Lahore Orange Train Metro
تصویر: Sajid Hussain/Pacific Press/picture-alliance

سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق جاری کی ہے، جس کے مطابق دنیا میں نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کے گلنے سڑنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر میتھیں گیس کا اخراج ہو رہا ہے۔ یہ وہ گیس ہے، جو زمینی درجہ حرارت میں اضافے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

اس تحقیق میں سائنسدانوں نے دنیا کے تین بڑے شہروں کے سیٹلائٹ ڈیٹا کا جائزہ لیا ہے۔ ان بڑے شہروں میں پاکستان کا لاہور، بھارت کا دہلی اور ارجنٹائن کا بیونس آئرس شامل ہیں۔ اس ڈیٹا سے پتا چلا ہے کہ سن 2018ء اور سن 2019ء کے دوران لاہور میں ضرر رساں گیسوں کا اخراج 1.4 سے 2.6  گنا زیادہ تھا۔ یہی حال دہلی اور بیونس آئرس کا تھا۔

 یہ مطالعہ بدھ کو تحقیقی جریدے 'سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع ہوا ہے۔ اس تحقیق کا مقصد مقامی حکومتوں کو عالمی حدت میں کمی کے لیے بنائے گئے اہداف کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس طرح ان خصوصی عوامل اور مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، جو ماحولیاتی تباہی میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔

میتھین گیس کیسے بنتی ہے؟

جب نامیاتی فضلہ جیسے کہ خوراک، لکڑی یا کاغذ گلنے سڑنے لگتے ہیں تو ہوا میں میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ آئل اینڈ گیس سسٹمز اور زراعت کے بعد دنیا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی تیسری بڑی وجہ نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر یا پھر لینڈ فِلز ہیں۔ لینڈ فِلز اس نامیاتی ملبے کو کہا جاتا ہے، جو زمین بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

Indien | Mülldeponie in Neu Delhi
میتھین گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت 80 گنا زیادہ گرمی یا حدت کو قید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہےتصویر: Manish Swarup/AP/picture alliance

 گرین ہاؤس گیسوں میں میتھین کا حصہ صرف 11 فیصد ہے اور اخراج کے بعد یہ تقریبا بارہ سال تک ہوا میں رہتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہوا میں یہ گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت 80 گنا زیادہ گرمی یا حدت کو قید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق موجودہ عالمی حدت میں 25 فیصد کردار اُس میتھین گیس کا ہے، جو انسان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔

جدید سیٹلائٹ تصاویر کا استعمال

یوہانس ماساکیرز اس مطالعے کے سرکردہ مصنف ہیں اور نیدرلینڈز انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس میں بطور ماحولیاتی سائنسدان اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''یہ پہلا موقع ہے کہ ہائی ریزولوشن سیٹلائٹ تصاویر کو لینڈ فلز کا مشاہدہ کرنے اور ان کے میتھین کے اخراج کا حساب لگانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔‘‘

ترکمانستان کے صدر پھر ’جہنم کا دروازہ‘ بند کرنے کے خواہش مند

ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ''ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ بہت سے نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر یا لینڈ فلز شہر کے سائز کے مقابلے میں تو نسبتاً چھوٹے ہیں لیکن اُس مخصوص علاقے میں خارج ہونے والی ضرر رساں گیسوں کے ایک بڑے حصے کے ذمہ دار ہیں۔‘‘

اوآن نسبت یونیورسٹی آف لندن میں ارتھ سائنٹیسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''اس نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ لینڈ فلز یا کوڑے کے ڈھیروں کا بہتر انتظام کس قدر ضروری ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں تو خاص طور پر اس حوالے سے اقدامات کرنا ضروری ہیں کیوں کہ ان ممالک میں اکثر ایسے کوڑے کے ڈھیروں کو آگ لگ جاتی ہے، جس سے ایسے علاقوں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کے سدباب میں سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال ابھی نیا ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک مستقبل میں اس سے مزید فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق چین اور بھارت دنیا میں سب سے زیادہ میتھین گیس پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔ 

ا ا / ع ب ( اے پی)

’’کاش پاکستان میں بھی کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا نظام ہو‘‘