1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر میں امن مذاکرات میں پیشرفت کے منتظر طالبان

18 اپریل 2013

طالبان حلقوں کا کہنا ہے کہ قطر میں بسنے والے طالبان رہنماؤں نے گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے کے دوران اس خلیجی ریاست میں امریکی حکام کے ساتھ افغانستان کے حوالے سے کوئی امن مذاکرات نہیں کیے اور نہ ہی جلد کوئی امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/18ImR
تصویر: AP

خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ طالبان باغیوں کے مندوبین کی ایک ٹیم 2012ء کے اوائل میں امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنے کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز قطر پہنچی تھی۔ واضح رہے کہ امریکا 2014ء میں افغانستان میں امن و امان افغان فورسز کے حوالے کرنے سے پہلے اس طرح کے مذاکرات پر بہت زیادہ زور دے رہا ہے۔

دوحہ میں موجود وفد میں شامل نمایاں ترین شخصیات میں سے ایک طیب آغا بھی ہیں، جو طالبان کے قائد ملا محمد عمر کے سابق چیف آف سٹاف ہیں۔

معاملے پر قریبی نظر رکھنے والے طالبان ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ امریکی حکام کے ساتھ طالبان کے وفد کی ایک ملاقات مارچ 2012ء میں ہوئی تھی تاہم اُس کے بعد اس قسم کی کوئی ملاقاتیں عمل میں نہیں آئیں۔ قطر میں بسنے والے بہت سے طالبان اب اپنے خاندانی معاملات میں مصروف ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان طالبان کو بازاروں میں روزمرہ ضرورت کی اَشیاء خریدتے اور اپنے بچوں کے ساتھ دل بہلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ روئٹرز کو ایسے کوئی قطری حکام نہیں مل سکے، جو ان رہنماؤں کی ملک میں موجودگی کی تصدیق کر سکتے۔

طالبان امن مذاکرات میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں جبکہ اُن کی جانب سے مزاحمت کا سلسلہ بھی شد و مد سے جاری ہے
طالبان امن مذاکرات میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں جبکہ اُن کی جانب سے مزاحمت کا سلسلہ بھی شد و مد سے جاری ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ایک طالبان ذریعے نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس سال کے دوران امریکا کی جانب سے ایک بار بھی رابطہ نہیں کیا گیا ہے‘۔ اِس ذریعے کا مزید تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ افغان تصفیے کے لیے امریکا، پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پیشرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مارچ میں طالبان نے یہ کہہ کر مذاکرات معطل کر دیے تھے کہ امریکا افغان مفاہمتی عمل کے سلسلے میں مبہم اشارے دے رہا ہے۔

دوحہ کے افغان سفارت خانے کے قونصلر محمد ہمت بتاتے ہیں:’’طالبان نے قیدیوں کے تبادلے اور اپنے ایک گروپ کے طور پر تسلیم کیے جانے کے لیے کہا تھا لیکن جہاں تک میرے علم میں ہے، مزید کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔‘‘ واضح رہے کہ ابتدائی مذاکرات دوحہ میں قائم امریکی فوجی مرکز میں منعقد ہوئے ہیں۔

اب تک کابل حکومت نے بھی باغیوں کے ساتھ کوئی باضابطہ بات چیت نہیں کی ہے تاہم اُس کی خواہش ہے کہ 2014ء میں غیر ملکی دستوں کے افغانستان سے انخلاء سے قبل طالبان کے ساتھ کوئی تصفیہ طے پا جائے۔

گزشتہ مہینے افغان صدر حامد کرزئی کے دورہء قطر اور امیر شیخ حماد بن خلیفہ الثانی کے ساتھ اُن کی بات چیت کا مقصد قطر میں طالبان کے ایک ایسے نمائندہ دفتر کے قیام کی کوششوں کو تیز تر کرنا تھا، جہاں طالبان کے ساتھ مزید مذاکرات کیے جا سکیں۔ اس سے پہلے تک کرزئی خود ہی ایسے کسی دفتر کے قیام کے خلاف تھے۔ اُنہیں ڈر تھا کہ ایسا کرنے سے طالبان کی سیاسی حیثیت مستحکم ہو جائے گی اور مذاکرات اُن کی اپنی گرفت سے نکل جائیں گے۔ بعد ازاں حلیف ممالک کے دباؤ نے کرزئی کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

صدر حامد کرزئی بھی طالبان کے ساتھ مفاہمت چاہتے ہیں لیکن امن عمل پر پوری طرح سے اپنا کنٹرول بھی رکھنا چاہتےہیں
صدر حامد کرزئی بھی طالبان کے ساتھ مفاہمت چاہتے ہیں لیکن امن عمل پر پوری طرح سے اپنا کنٹرول بھی رکھنا چاہتےہیںتصویر: AP

اگرچہ ترکی اور سعودی عرب نے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میزبانی کی پیشکش کی تھی تاہم ایک افغان عہدیدار کے مطابق سعودی عرب افغان حکومت کے لیے اس بناء پر کوئی مثالی جگہ نہیں تھی کہ اس ملک کے پاکستان کے ساتھ بہت قریبی اور مضبوط تعلقات ہیں۔

کابل حکومت کا الزام ہے کہ پاکستان طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے یا اپنی سرزمین پر اُن کی موجودگی کو اِس لیے برداشت کر رہا ہے کہ اُنہیں بعد ازاں افغانستان میں واقعات پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کر سکے۔

قانونی معاملات میں کرزئی کے مشیر نصر اللہ ستانک زئی نے روئٹرز کو بتایا کہ دوحہ میں طالبان کے دفتر کے قیام سے افغان حکومت اُن کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات کر سکے گی اور امن عمل پر پاکستان کے اثر انداز ہونے کے امکانات کو محدود کیا جا سکے گا۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کے لیے موجود طالبان رہنماؤں میں سعودی عرب میں طالبان کے ایک سابق سفیر مولوی شہاب الدین دلاور، پاکستان میں طالبان کے ایک سابق سفیر سہیل شاہین اور طالبان دور کے پبلک ہیلتھ کے شعبے کے ایک سابق وزیر شیر محمد ستانک زئی بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قطری حکام نے اِن رہنماؤں کو میڈیا کے ساتھ گفتگو کرنے سے منع کر رکھا ہے۔

(aa/ah(reuters