1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فواد چوہدری اپنے بیان پر ایک بار پھر تنقید کی زد میں

عبدالستار، اسلام آباد
28 دسمبر 2021

تند و تیز بیانات کے لیے شہرت رکھنے والے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چودھری ایک بار پھر تنقید کی زد میں ہیں۔ اس مرتبہ وجہ بنا ان کا وہ بیان جس میں انہوں نے کہا کہ قائد اعظم ایک مذہبی ریاست نہیں چاہتے تھے۔

https://p.dw.com/p/44vjj
Pakistani International Film Festival | Fawad Chaudhry
تصویر: Hum TV PR

فواد چوہدری نے یہ بیان پیر کے دن ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔ ان کے اس بیان کی مذہبی طبقات کی طرف سے بھرپور مذمت کی جا رہی ہے جبکہ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ کوئی بھی سیاسی یا سماجی رہنما اگر ریاست اور مذہب کو الگ کرنے کی بات کرتا ہے تو اس کی حمایت کی جانی چاہیے قطع نظر اس کے کہ اس کی سیاسی وابستگی کیا ہے۔

 پاکستان: پارلیمانی انتخابات میں مذہب کا سہارا

فواد چودھری نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ قائد اعظم نے گیارہ اگست کی تقریر میں اس بات کو واضح کر دیا تھا کہ وہ کس طرح کا پاکستان چاہتے تھے۔

Pakistan - Muhammad Ali Jinnah
پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحتصویر: picture alliance/CPA Media/Pictures From History

مذہبی حلقوں کی شدید مذمت

فواد چوہدری کے اس بیان پر خاص طور پر ملک کے مذہبی حلقے چراغ پا ہیں، لیکن کچھ سیاسی تنظیموں نے بھی فواد چوہدری پر تنقید کی ہے۔

لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے بھی فواد چوہدری کے بیان کی مذمت کی ہے جبکہ لال مسجد سے منسلک شہدا فاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہمارے خیال میں فواد چوہدری کا بیان نہ صرف پاکستان کے قانون کے خلاف ہے بلکہ پاکستان کی نظریاتی اساس اور آئین کے خلاف بھی ہے، ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے اور وزیر اعظم عمران خان کو فوری طور پر ان سے استعفیٰ طلب کرنا چاہیے یا ان کو ہٹا دینا چاہیے۔"

ان کا کہنا تھا کہ فواد چودھری نے پہلی دفعہ کوئی ایسی بات نہیں کی، گزشتہ سال جولائی میں بھی انہوں نے اسی طرح کی بات کی تھی۔

محمد علی جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے، اسلامی یا سیکولر؟

قائد اعظم سیکولر شخصیت کے مالک تھے

تاہم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست نے پاکستان کو بڑا نقصان پہنچایا اور ملک میں نہ صرف مذہبی نفرت بڑھی ہے بلکہ اس کی وجہ سے فرقہ واریت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر اکرم بلوچ کا کہنا ہے تاریخی طور پر یہ بات صحیح ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح سیکولر شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست نہیں چاہتے تھے اور نہ وہ تھیوکریسی کے حامی تھے، ان کا اپنا رہن سہن اور طرزِ زندگی بھی ایسا تھا کہ وہ کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے، انہوں نے سیاسی مقاصد کے لیے مذہبی علامات کو ضرور استعمال کیا لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ سیکولر شخصیت کے حامل تھے اور پاکستان کو ایک جدید ترقی پسند ریاست بنانا چاہتے تھے، جہاں پر تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل حقوق حاصل ہوں گے۔‘‘

Pakistan Islamabad | Imran Khan, Premierminister
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے مطابق تنقید کرنے والوں کا اصل ٹارگٹ فواد چودھری نہیں ہے بلکہ وہ عمران خان کو بدنام کرنا چاہتے ہیںتصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

سینیٹر اکرم بلوچ لے مطابق فواد چودھری نے جو بات کہی ہے وہ تاریخی حقیقت ہے، اس پر شور مچانا یا ان پر فتوے لگانا، ان پر غداری کے الزامات لگانا کسی طرح مناسب نہیں۔

اکرم بلوچ کا کہنا تھا کہ کوئی بھی سیاسی یا سماجی شخصیت اگر مذہب اور سیاست کو علیحدہ کرنے کی بات کرتا ہے تو اس کو سراہنا چاہیے۔ ان کے مطابق، "دنیا کا کوئی بھی ملک حقیقی معنوں میں جمہوری نہیں بن سکتا جب تک وہ مذہب اور ریاست کے درمیان ایک لکیر نہ کھینچے۔ قائداعظم قطعی طور پر ایسا پاکستان نہیں چاہتے تھے جہاں لوگوں سے مذہبی بنیادوں پر تفریق ہو۔‘‘

اصولی بات کی تائید

عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما شازیہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " فواد چوہدری نے اصولی بات کی اور اس بات کی مخالفت صرف اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ فواد چودھری کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، ایک دور میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کا گروپ بھی پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کی بات کرتا تھا اور میرے خیال میں یہ بات بالکل صحیح تھی۔‘‘

ایک اسلامی یا سیکولر پاکستان؟

شازیہ خان کا مزید کہنا ہے کہ عوامی ورکرز پارٹی سمیت تمام ترقی پسند سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے اور ریاستی امور میں مذہب کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما کہتی ہیں، ''مذہب ہر شخص کا اور ہر شہری کا نجی معاملہ ہونا چاہیے تو اگر فواد چوہدری نے یہ کہا ہے کہ پاکستانی ریاست کو مذہبی نہیں ہونا چاہیے اور قائداعظم مذہبی ریاست نہیں چاہتے تھے تو یہ بات تاریخی طور پر درست ہے اور اس مسئلے کو لے کر ان کے خلاف کوئی کیمپین نہیں چلنی چاہیے۔‘‘

Arbeiter streichen die Kuppel der Roten Moschee in Islamabad
فواد چوہدری کے اس بیان پر خاص طور پر ملک کے مذہبی حلقے چراغ پا ہیںتصویر: AP

بیان اور سیاق و سباق

پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ پارٹی کے مخالفین فواد چوہدری کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھ رہے ہیں اور اس کو حکومت کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

رکن قومی اسمبلی اور تحریک انصاف کے رہنما محمد اقبال خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " فواد چودھری کا مطلب یہ ہے کہ قائد اعظم کوئی ایسی ریاست نہیں چاہتے تھے جہاں پر مذہب کی بنیاد پر لوگوں سے تفریق کی جائے، جس طرح پیغمبر اسلام انسانیت کے لیے رحمت ہیں اسی طرح پاکستان تمام شہریوں کے لیے رحمت ہے، پاکستان میں کوئی مذہبی تفریق نہیں ہونی چاہیے، ہم مذہب اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم کی مخالفت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تمام پاکستانیوں کو مکمل آزادی ہونی چاہیے اور یہی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا وِژن تھا جس کو عمران خان آگے بڑھا رہے ہیں۔"

پاکستان کے ’آخری یہودی‘ کو سامیت مخالف جذبات پر شکایت

محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا تھا کہ کچھ دائیں بازو کی جماعتیں اور اپوزیشن کی جماعتیں اس بیان کو لے کر واویلا کر رہی ہیں،"ان جماعتوں کا اصل ٹارگٹ فواد چودھری نہیں ہے بلکہ وہ عمران خان کو بدنام کرنا چاہتے ہیں اور عمران خان کے لیے مشکلات کھڑی کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کو ایک ایسی فلاحی ریاست بنانا چاہتا ہے جس کا خواب قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔"