1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہفرانس

فرانس کنوارے پن کے ٹیسٹ پر پابندی کا خواہاں

9 دسمبر 2020

مسلم انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے تناظر میں فرانسیسی حکومت خواتین کے کنوارے پن کے ٹیسٹ اور سرٹیفیکیٹ پر قانونی طور پر پابندی عائد کرنا چاہتی ہے۔ حقوق نسواں کی کارکنان اس پابندی کو مسئلے کا حل نہیں سمجھتیں۔

https://p.dw.com/p/3mTq6
Samira Ibrahim
تصویر: picture-alliance/dpa

'' یہ سرٹیفیکیٹ میرے لیے نہیں بلکہ میرے خاندان والوں کے لیے ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں دم بخود ہوں۔‘‘ یہ اور اس سے ملتے جلتے جذبات کا اظہار مسلم گھرانوں سے تعلق رکھنے والی وہ لڑکیاں کرتی ہیں جنہیں اپنے خاندان والوں کے مذہبی اور روایتی عقائد کی پاسداری کرنا ہوتی ہے۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس کے ایک نواحی علاقے ساں ڈینی میں تشدد کی شکار خواتین کے لیے قائم ایک مشاورتی دفتر ' میزوں دے فم‘ سے منسلک 'گائناکولوجسٹ‘ یا خواتین کے امراض کی ماہر ڈاکٹر غادۃ حاتم کہتی ہیں، '' زیادہ تر کیسز میں یہی ہوتا ہے کہ خواتین ہمارے کلینک میں فون کرکے براہ راست ڈاکٹر سے بات کرنا چاہتی ہیں۔ اس سے مجھے فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ نوجوان لڑکیاں مجھ سے کیا کہنا چاہتی ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: مراکش: ’کنوارے پن کا ٹیسٹ ایک طرح کی جنسی زیادتی‘

اوسطاً مہینے میں تین بار ڈاکٹر غادۃ حاتم کو ایسی نوجوان مسلمان خواتین کی کال موصول ہوتی ہے جو ان سے اپنے کنوراے پن کی سند حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں تاہم ڈاکٹر غادۃ حاتم نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فرانس میں شاید ہی کوئی حقیقی معنوں میں لڑکیوں کے کنوارے پن کا ٹیسٹ کرتا ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ اپنے خاندانی دباؤ  کی شکار لڑکیاں ڈاکٹروں کو فون کرتی ہیں، ان سے سرٹیفیکیٹ مانگتی ہیں اور ڈاکٹر بغیر کوئی ٹیسٹ یا معائنہ وغیرہ کیے کاغذ کا یہ ٹکڑا انہیں تھما دیتی ہے۔   

 توہین آمیز سلوک

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اس جدید دور میں بھی لڑکیوں کے کنوارے پن کے ٹیسٹ کا رواج دنیا کے 20 ممالک میں پایا جاتا ہے۔ خواتین ڈاکٹر اس کا عملی طور پر جسمانی معائنہ کرتی ہے جبکہ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی معائنہ حتمی طور پر یہ ثات نہیں کر سکتا ہے کہ لڑکی یا خاتون کنواری ہے یا نہیں۔

مصر کی عدالت نے 2011 ء میں مقید خواتین کے کنوارے پن کے جبری ٹیسٹ پر پابندی لگا دی تھی۔
مصر کی عدالت نے 2011 ء میں مقید خواتین کے کنوارے پن کے جبری ٹیسٹ پر پابندی لگا دی تھی۔ تصویر: dapd

ڈبلیو ایچ او اسے بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتا ہے جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ ٹیسٹ لڑکیوں اور خواتین کو جسمانی اور ذہنی طور پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کے مترادف ہے۔

انسانی حقوق کی اس تنظیم کے ایک آن لائن اعلامیے میں کہا گیا ہے، ''یہ ٹیسٹ انسانی وقار کو گرانے اور خواتین کو جسمانی اور ذہنی طور پر ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

مزید پڑھیے: دو کم عمر بہنیں ’ختنے‘ کے دوران ہلاک

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کنوارے پن کے ٹیسٹ کو ان تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، جو اذیت رسانی اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی اور تضحیک آمیز سلوک پر پابندی عائد کرتے ہیں۔ 2018 ء میں اقوام متحدہ نے تمام رکن ممالک سے کنوارے پن کے ٹیسٹ کی فرسودہ روایت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

 پابندی مسئلے کا حل نہیں 

فرانس کی حقوق نسواں کی اہم ترین تنظیموں میں سے ایک 'اوز لے فیمینسماں‘ کی ترجمان سیلین پیک کہتی ہیں، ''حکومت اس موضوع پر کسی تحقیق یا مطالعے کے بغیر کارروائی کر رہی ہے۔‘‘ ان کے لیے اس ٹیسٹ پر پابندی اس مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے۔

حقوق نسواں کی کارکنان ایسے ٹیسٹ کی سخت ناقد ہیں۔ ڈاکٹر غادۃ حاتم بھی اس پابندی کو خواتین کی صورتحال میں مزید خرابی کا سبب سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی، ''پابندی سے متعلق یہ قانون منفی اثرات کا حامل ہو سکتا ہے اور یہ ڈاکٹروں اور مریضوں کے مابین اعتماد اور تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نیز متعلقہ خواتین اپنے خاندان کے اندر تنازعات سے بچنے کے موقع سے محروم ہو جائیں گی۔ بہت سی خواتین اس سرٹیفیکیٹ کی مدد سے خود کو تشدد سے بچا لیتی ہیں۔ اس ٹیسٹ پر پابندی لگا کر ایسی خواتین جن کے خاندان والے اس کا مطالبہ کرتے ہیں، تنہا رہ جائیں گی۔

کابل میں کنوارے پن کے ٹیسٹ پر مجبور خواتین کے حقوق کے لیے ہیومن رائٹس کمیشن نے ایک کانفرنس منعقد کی۔
کابل میں کنوارے پن کے ٹیسٹ پر مجبور خواتین کے حقوق کے لیے ہیومن رائٹس کمیشن نے ایک کانفرنس منعقد کی۔تصویر: DW/H. Sirat

سزا کے بجائے آگہی اور شعور کی ضرورت

ایسی نوجوان خواتین جنہیں اس ٹیسٹ اور اس کے سرٹیفیکیٹ یا سند کی ضرورت ہے زیادہ تر مسلم گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ قانون سازی اور پابندیاں لوگوں کے اذہان کو نہیں بدلتیں۔ ڈاکٹر غادۃ حاتم کہتی ہیں، ' ہمیں اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ والدین اپنے گھرانوں میں خواتین کے احترام اور ان کے حقوق کو اپنی روزرہ زندگی کا لازمی جُز بنائیں اور یہ اقدار لڑکیوں کی پرورش کی بنیاد ہوں۔‘‘

خواتین کے حقوق کی تنظیم 'اوز لے فیمینسماں‘ کی ترجمان سیلین پیک کا ماننا ہے کہ حکومت کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بالکل الگ انداز اپنانا ہوگا۔ ان کے بقول، ''ہمارے اندر اتنی اہلیت اور صلاحیت ہونا چاہیے کہ ہم ایسی لڑکیوں کو جو کنواری نہ ہونے کی وجہ سے اپنی فیملی کے تشدد اور دھمکیوں کا سامنا کر رہی ہیں، انہیں ہنگامی بنیادوں پر قیام گاہیں فراہم کر سکیں۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: لڑکیوں کا ختنہ: بھارتی مسلم بوہرہ کمیونٹی میں وجہ تنازعہ

ڈاکٹر غادۃ حاتم  مدد کی طلبگار خواتین کے لیے ہمیشہ دستیاب رہنے کا عزم رکھتی ہیں۔ اگر اس ٹیسٹ پر پابندی کا قانون نافذ ہو بھی گیا تو ان تمام معاملات میں انتہائی خطرات کی شکار جوان لڑکیاں اور خواتین کے کیسز سامنے آنے پر وہ پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کو رپورٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

سکپا ڈیلالی/ ک م/ ع ب

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں