1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غصہ کیوں آتا ہے اور اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

26 جون 2021

ایک فقرہ ہم تواتر سے سنتے ہیں کہ غصہ آنا ایک فطری عمل ہے۔ اگر آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں تو جان لیجیے کہ غصہ فطری اور قدرتی جذبہ ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ تمام انسانی جذبات کا نقطہ عروج ہے۔

https://p.dw.com/p/3vb6z
Symbolbild Gewalt in der Erziehung
تصویر: Fotolia/Herby ( Herbert ) Me

کچھ عرصہ قبل اس حوالے سے ایک ایسا حادثہ وقوع پذیر ہوا، جو دل و دماغ پر گہرے اثرات چھوڑ گیا۔ والد صاحب شوروم سے نئی چمکتی کار خرید کر گھر لائے تو بچہ انتہائی مسرت کے عالم میں دوڑتا ہوا آیا۔ اچانک کسی چیز سے الجھ کر گاڑی سے ٹکرایا تو اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چابی سے نئی چمکتی ہوئی گاڑی پر ایک خراش پڑ گئی۔ والد صاحب خراش دیکھ کر طیش میں آ گئے اور بچے کو پیچھے دھکیلا۔ بچہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور کچھ اس طرح گرا کہ اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ والد نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا کہ غصے کا ایک لمحہ اتنا بڑا نقصان کردے گا۔

 غصے کی شدت ہر انسان میں مختلف ہوتی ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت سے افراد اپنے غصے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ اور ان میں سے بھی کچھ وہ ہوتے ہیں جو کہ غصے کی حالت میں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں جبکہ کچھ افراد انتہائی ٹھنڈے مزاج کے ہوتے ہیں۔ غصہ آ بھی جائے تو ان پر جامد خاموشی چھا جاتی ہے۔

غصے میں ہر شخص کا ردعمل الگ کیوں؟

 غصہ کی حالت میں ہر شخص کا ردعمل الگ کیوں ہوتا ہے؟ اس بات کو یوں سمجھیں کہ اگر آپ سے سوال کیا جائے کہ آپ خوش رہنا چاہتے ہیں یا بے چین تو یقیناً ہر شخص کا جواب ہو گا کہ وہ خوش رہنا چاہتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص امن اور سکون کی زندگی گزارنا چاہتا ہے، بے چینی نہیں چاہتا۔ کسی کو بھی یہ بات پسند نہیں ہوتی کہ لوگ اسے غصے والا کہیں۔ نہ ہی کسی کو غصہ کر کے مزہ آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غصہ ہماری خواہش نہیں ہے یعنی ہماری بنیادی جبلت ہرگز نہیں ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت آ کر ہم پہ اپنا قبضہ جما لیتی ہے اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک فطری چیز ہے، جو ہمارے اندر سے اٹھی ہے۔

DW Urdu Blogerin Tahira Syed
طاہرہ سید، بلاگرتصویر: Privat

ماہرین کا کہنا ہے کہ غصے کے پیچھے ہمارے اندر کا خوف ہوتا ہے اور اس خوف کے پیچھے ہماری کوئی نااہلیت یا بے بسی ہوتی ہے جو غصے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ غصہ کنٹرول کرنے کے لئے بہت سے علاج بتائے جاتے ہیں جیسا کہ پانی پی لیں، بیٹھ جائیں ۔ یہ سب اس کا وقتی حل تو ضرور ہو سکتے ہیں لیکن علاج ہرگز نہیں۔ علاج کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس غصے کے پیچھے دراصل کون سا خوف چھپا ہوا ہے اور پہلے اس خوف کو ختم کرنا ہوگا۔

غصہ کیا ہے؟

جیسا کہ ہم نے جانا کہ غصہ دراصل الگ سے کوئی جذبہ نہیں بلکہ تمام انسانی جذبات جب اپنے عروج پر پہنچتے ہیں تو غصے کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ خوف، اداسی، فرسٹریشن، پچھتاوا، شرمندگی یہاں تک کہ خوشی بھی جب ایک حد کو پار کرے تو غصہ ظاہر ہو گا۔ مثلاً جوان اولاد بہت دیر کے لئے بغیر اطلاع کے گھر سے غائب ہو جائے تو اس کی واپسی پر والدین کا غصہ دراصل ان کے اندر کا خوف ہے کہ کہیں بچہ کسی ناپسندیدہ صورتحال کا شکار نہ ہو گیا ہو۔

 ہمارے معاشرے میں موجود مسئلے مسائل بھی کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ مایوسی کی کیفیت اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی ہے۔ ہر شخص مسلسل ذہنی اضطراب کا شکار ہے۔ ہر طرح کا خوف ہمارے ذہن کو جکڑے ہوئے ہے۔ کبھی بجلی کی آنکھ مچولی تو کبھی ٹریفک جام ہمارے اعصاب کا امتحان لیتا ہے۔ کبھی بیروزگاری تو کبھی مہنگائی کا جن ہمارا جینا حرام کر دیتا ہے۔ اس جیسے تمام مسائل ہمارے ذہنی دباؤ اور خوف میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ پھر کسی چھوٹی سی بات پر انتہائی رد عمل اسی دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس کا مظاہرہ آئے دن ہم سڑکوں پر دیکھتے ہیں۔

غصے کا علاج کیسے کریں؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس غصے کا کیا علاج کریں۔ ماہرین کے مطابق بچپن میں ایک بچے کا اس کی ماں سے تعلق اس بات کا تعین کرتا ہے کہ آیا وہ بچہ بڑا ہو کر غصیلا مزاج ہو گا یا پھر دھیمے مزاج کا حامل ہو گا۔ ایک ایسا بچہ، جس کی ہر بات فوراً مان لی جاتی ہے، وہ بڑے ہوکر ہر شخص سے یہی توقع رکھے گا کہ اس کی ہر بات فوراً مان لی جائے۔ مگر اس کا باس، اس کا پڑوسی، اس کی بیوی یا پھر معاشرہ اس کی ماں نہیں لہذا اختلاف رائے بھی ہو گا، جو اس کے مزاج پر گراں ہو گا۔

اور  دوسرا وہ بچہ، جس کی ہر بات رد کر دی جاتی ہے۔ ایسے بچے کا شخصی خاکہ بن ہی نہیں پاتا۔ اس کے اندر کی فرسٹریشن اسے بہت جلد غصے کی حد تک پہنچا دیتی ہے۔ لہذا بچوں کی پرورش میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ ان کی ہر بات نا مانی جائے۔ بچوں کو منطقی طور پر نہ سننے کی عادت ہونا ضروری ہے۔ لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ ہر بار ہی ان کی بات رد کر دی جائے۔ اس معاملے میں دوسرا اہم عنصر حق ملکیت کا احساس حد سے زیادہ ہونا ہے۔ یعنی ایک ایسا بچہ جو ہر چیز پر اپنا حق ملکیت جتاتا ہو۔ مثلا یہ میرا قلم ہے یا یہ میرا کھلونا ہے یہ میرا کمرہ ہے۔ ایسے بچے بڑے ہو کر اپنی چیزوں کے بارے میں حد سے زیادہ حساس طبیعت کے مالک بن جاتے ہیں۔ اور پھر اسی طرح کے حادثات جنم لیتے ہیں کہ جیسے والد نے اپنے بیٹے کا ہاتھ گاڑی پر صرف ایک خراش ڈالنے کی پاداش میں توڑ دیا۔

بچوں کی تربیت ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت درست سمت میں کریں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ جنم لے سکے اور ان کے بچے معاشرے کا ایک صحت مند رکن بنیں۔