1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 عمران خان کے نئے پاکستان سے مذہبی اقلیتوں کی توقعات

شیراز راج
26 جولائی 2018

ماہرین کے نزدیک مذہبی اقلیتوں کا تقریباﹰ  تمام سیاسی جماعتوں سے منسلک ہونا اس خوش آئند حقیقت کا غماز ہے کہ وہ مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہیں۔ دوسری طرف مذہبی اقلیتیں عمران خان کی جیت کو  امید کی کرن سمجھتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3295g
Unruhen in Pakistan Islamabad
تصویر: Getty Images/AFP/Aamir Qureshi

عام انتخابات 2018 کی انتخابی مہموں کے دوران ملکی اور بین الاقوامی میڈیا اور سیاسی ماہرین جہاں انتہا پسند، فرقہ پرست اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں اور جماعتوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی کردار پر تشویش کا اظہار کرتے رہے وہیں اس حقیقت کی جانب بہت کم ماہرین نے توجہ مبذول کی کہ مذہبی اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد عام نشستوں سے الیکشن لڑ رہی تھی۔ تھرپارکر کی سنیتا پرمار اور خیبر پختونخوا کے رادیش سنگھ ٹونی کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے نمایاں کیا تاہم ان ہزاروں کارکنوں، ووٹروں اور سیاسی جماعتوں کے  'اقلیتی ونگز' کے عہدہ داروں پر نظر نہ کی جو اپنی اپنی پارٹی کے لیے دن رات کام کرتے رہے اور اس دوران اس سماجی تقسیم اور تفریق کو کم کرنے میں مددگار  ثابت ہوئے جو صرف اجتماعی سیاسی عمل سے ہی دور ہر سکتی ہے۔

پاکستانی انتخابات: پارسی اقلیت کہاں کھڑی ہے؟

پشاور: نڈر سکھ امیدوار دھمکیوں کے باوجود انتخابی مہم میں مشغول

ڈی ڈبلیو نے لاہور کے حلقہ پی پی 158 اور این اے 130 سے پی ٹی آئی کے لیے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ایک پرجوش مسیحی کارکن طارق بھٹی سے ٹیلی فون پر انٹرویو کیا۔ طارق کی آواز بیٹھی ہوئی تھی اور وہ فون پربات مشکل سے کر رہے تھےکیونکہ تمام رات اپنی پارٹی کی فتح کی خوشی میں نعرے لگانے کی وجہ سے انکی آواز تقریباﹰ ختم ہو چکی تھی۔ اسکے باوجود وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے تھے، "میں آج بہت خوش ہوں۔ ہم نے آج ثابت کیا ہے کہ ہم اس حلقے میں ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں سے صرف ن لیگ جیتتی تھی۔ اس علاقے میں ایک بڑے مدرسے کا بہت اثر ہے لیکن اقلیتوں کے ووٹ کم از کم چند یونین کونسلوں میں بہت فیصلہ کن ہیں۔ ہماری یونین کونسل سے اس مرتبہ پی ٹی آئی جیتی ہے اور صرف ہمارے ووٹوں کی وجہ سے جیتی ہے۔" انکا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کے ساتھ اس لیے چلے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ اقلیتوں کی آواز تمام ملک میں پھیل جائے، "ہمیں عمران خان پر اعتبار ہے۔" طارق بھٹی کا دعوی ہے کہ لاہور کی اقلیتوں نے اس مرتبہ کُھل کر پی ٹی آئی کی حمایت کی ہے۔

Stamm der Kalash in Pakistan
تصویر: Getty Images/John Moore

پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں عام نشستوں کے لیے اقلیتوں کو ٹکٹیں دینے کے رجحان کو بھی سراہا گیا ہے۔ اسکے علاوہ اقلیتوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے آزاد امیدواروں کے طور پر بھی انتخابات میں حصہ لیا۔ گو، مہیش کمارملانی کے سوا، کوئی اقلیتی امیدوار نہیں جیت سکا لیکن ان کا آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ ایک خوش آئند امر قرار دیا جا رہا ہے۔ میر پور خاص سے ہری رام کشوری لعل کو پیپلزپارٹی نے ٹکٹ دی تھی۔ وہ بہت تھوڑے ووٹوں سے ہارے ہیں جبکہ انکی انتخابی مہم لڑنے والوں میں ہندو مسلمان سب ہی شامل تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے سندھ چیپٹر کے اقلیتی ونگ کے صدر، خیال داس کوہستانی جامشورو کے حلقہ این اے 233 سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ ن لیگ نے عمر کوٹ (این اے 220 ) سے ایک ہندو خاتون، نیلم ولیجہ کو ٹکٹ دیا۔ ایم کیوایم پاکستان نے ملیر (این اے 236 ) سے دیوان چند چاولہ کو ٹکٹ دیا۔ اسی پارٹی نے میرپورخاص (این اے 218 ) سے سنجے پروانی کو ٹکٹ دیا۔ سنجے پروانی کے مقابلے میں ایک آزاد امیدوار روپ چند بھی تھے۔ اسی طرح گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے سانگھڑ (این اے 216 ) کے لیے کشن چند پروانی کو ٹکٹ دیا جبکہ ایک مسیحی خاتون صوفیہ یعقوب کو عوامی نیشنل پارٹی نے این اے 256 کے لیے ٹکٹ دیا تھا۔ ہندو برادری کے معروف راہنما رمیش کمار کو پی ایس 43 کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے ٹکٹ دیا۔

انتخابات اور پاکستانی اقلیتیں

اقلیتوں کے اس  رجحان پرڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکن، وکیل اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے صوبائی کوآرڈی نیٹر چندن کمار نے کہا، "اس مرتبہ مزید بہتری آئی ہے اور میں اسے بہت خوش آئند سمجھتا ہوں۔ ہم نے نسل در نسل ایک مذہب امتزاج اور انسانی برابری پر مبنی معاشرے کا خواب دیکھا ہے۔  یہ خواب مسلسل جمہوری عمل سے ہی شرمندہ تعبیر ہو گا۔ ہندوؤں کی سب سے بڑی آبادی تھرپارکر میں ہے، دوسرے نمبر پرعمرکوٹ اور پھر میر پور خاص ہے۔" ڈی ڈبلیو نے ان سے سوال کیا کہ وہ نئی حکومت سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ اسکے جواب میں انکا کہنا تھا، "ہمارا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ امن و امان اور قانون کی بالادستی ہر شہری کا حق ہے۔ سندھ میں جبری تبدیلی مذہب، اغوا اور جبری شادی وغیرہ بہت سنگین مسائل ہیں۔ پیپلز پارٹی نے گزشتہ حکومت میں ہندو میرج ایکٹ منظور کیا جو بہت اچھا اقدام تھا۔ اسی طرح انہوں نے جبری تبدیلی مذہب کے خلاف بل پیش کیا لیکن انتہا پسند مذہبی قوتوں کی مخالفت کی وجہ سے اسے واپس لینا پڑا۔"

چندن کمار نے پی ٹی آئی کی حکومت کو خوش آمدید کہا، "ہمیں امید ہے کہ عمران خان کے نئے پاکستان میں ہمیں انصاف ملے گا۔ انہوں نے بہت حوصلہ افزا تقریر کی ہے۔"

کرشنا کماری کی آمد اور مولانا سمیع الحق کی رخصتی

اقلیتی رہنما اور مرکز برائے سماجی انصاف کے ڈائریکٹر، پیٹر جیکب کا کہنا تھا کہ، "ان انتخابات میں اقلیتوں میں ایک سیاسی تحرک پیدا ہوئی ہے۔ اس کی وجہ تبدیلی کا نعرہ تھا۔ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں لیکن اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ تبدیلی کیسے آئے گی۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ لوگوں نے ہر جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے۔" اقلیتوں کی توقعات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا، "نصاب تعلیم اور تعلیمی پالیسیاں تبدیل کرنا ضروری ہے۔ اسکے علاوہ ہم چاہتے ہیں کہ قومی حقوق کمیشن اور خواتین حقوق کمیشن کی طرح اقلیتی حقوق کمیشن بھی قائم کیا جائے۔"

راولپنڈی کے قدیم علاقے لال کڑتی میں آباد مدراسی کمیونٹی کے ایک نمائندہ امروز داس کے مطابق، "ہم نے بڑھ چڑھ کر ووٹ ڈالا ہے۔ یہ ہمارا فرض بھی تھا اور ہمیں جمہوریت ہی سے امید بھی ہے۔ ہم چاہتےہیں کہ پاکستان ترقی کرے، یہاں امن، خوشحالی اور بھائی چارہ ہو۔ اس میں سب کا بھلا ہے۔" 

تھر پارکر کی عوام کے حقوق کے لیے لڑنا چاہتی ہوں، سنیتا پرمار