1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی انتخابات: پارسی اقلیت کہاں کھڑی ہے؟

21 جولائی 2018

عام انتخابات میں رائے دہی کے اہل کروڑوں پاکستانی شہریوں میں انتہائی چھوٹی سی پارسی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں ووٹر بھی شامل ہیں، جن کی اکثریت ممکنہ طور پر اپنا ووٹ کا حق استعمال نہیں کرے گی۔

https://p.dw.com/p/31qwz
Parsen Zoroastrismus Religion in Bombay
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Solanki

ایک دہائی پہلے پاکستان میں پارسیوں کی مجموعی تعداد سات ہزار کے قریب تھی لیکن اس اقلیت میں بچوں کی شرح پیدائش بہت کم اور دوسرے ممالک کی طرف نقل مکانی کر جانے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ اس وقت پاکستان کے پارسی شہریوں میں اکثریت بزرگ افراد کی ہے، بچوں کا تناسب بہت کم ہے اور رواں برس کے آغاز پر پارسی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی مجموعی آبادی صرف ایک ہزار یا اس سے تھوڑی سی زیادہ تھی۔ خود پارسی کمیونٹی کے ارکان کا اندازہ ہے کہ گزشتہ ششماہی میں اس تعداد میں مزید کمی ہو چکی ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک میں پارسیوں کی اکثریت کراچی ہی میں مقیم رہی ہے اور ابھی تک ایسا ہی ہے۔ صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پارسی کالونی کہلانے والا علاقہ پاکستان میں پارسیوں کا سب سے بڑا رہائشی علاقہ ہے۔ اس کے علاوہ چند پارسی گھرانے راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور اور کوئٹہ میں بھی رہتے ہیں۔ پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پارسیوں کی وہ روایتی کالونی، جس کے رہائشیوں سے خطاب کے لیے ایک بار بانی پاکستانی محمد علی جناح خود بھی کوئٹہ گئے تھے، اب تقریباً غیر آباد ہو چکی ہے۔

انتخابات کی تیاری، اقلیتوں پر بھاری

سیالکوٹ میں احمدیوں کی تاریخی مسجد منہدم کر دی گئی

مضبوط فلاحی ڈھانچا

پاکستان میں پارسی مذہبی اقلیت سے متعلق دو باتیں بہت اہم ہیں۔ ایک یہ کہ اس کمیونٹی کے ارکان میں شرح خواندگی سو فیصد کے قریب ہے اور دوسرے یہ کہ پاکستانی پارسی شہری کاروباری حوالے سے بھی بہت کامیاب ہیں۔ پاکستان میں اس اقلیت کو کس طرح کے ممکنہ مسائل کا سامنا ہے، اس بارے میں ڈوئچے ویلے نے گفتگو کی کراچی میں مقیم اور اسپیشل ایجوکیشن کی ماہر پارسی شہری مہرفیروز کاوسجی سے۔

مہرفیروز کاوسجی ، جو کاوسجی ٹرسٹ کے شعبہء تعلیم کی ڈائریکٹر بھی ہیں، ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہتی ہیں، ’’ہماری برادری کافی پڑھی لکھی ہے۔ ہم آپس میں بھی ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں پاکستان کی دیگر مذہبی اقلیتوں کے عمومی مسائل جیسی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ پارسیوں کے اپنے بہت سے ٹرسٹ اور فلاحی تنظیمیں ہیں، جو اس برادری کی فلاح و بہبود کے لیے عشروں سے کام کر رہے ہیں۔‘‘

پاکستان کی ایک مذہبی اقلیتی برادری کے ارکان کے طور پر پاکستانی پارسی کیسا محسوس کرتے ہیں، اس بارے میں مہرفیروز کاوسجی نے کہا، ’’ہمیں تو کبھی ایسا لگا ہی نہیں کہ یہ ملک ہمارا نہیں ہے، نہ ہی کبھی کسی نے ہمیں یہ احساس دلانے کی کوشش کہ ہم ایک اقلیت ہیں۔ قانونی طور پر اس بات کا افسوس بہرحال ہے کہ پاکستان کی دیگر مذہبی اقلیتوں کی طرح ہمیں بھی چند اہم سرکاری عہدوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر فوج کے سربراہ، وزیر اعظم یا صدر مملکت کا عہدہ۔ ان عہدوں کے لیے کسی بھی پاکستانی شہری کا مسلمان ہونا لازمی ہے۔‘‘

سیاست میں دلچسپی کم

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستانی پارسی برادری سیاست اور ملکی انتخابات میں کس قدر دلچسپی لیتی ہے، مہرفیروز کاوسجی نے کہا، ’’پہلے جب جداگانہ طریقہ انتخاب ہوتا تھا، تو دیگر مذہبی اقلیتوں کی طرح پارسی بھی الیکشن اور رائے دہی کے عمل دلچسپی لیتے تھے۔ وجہ یہ سوچ تھی کہ اگر پارلیمان میں ہماری بھی نمائندگی ہو گی، تو ہمارے مسائل بھی پارلیمنٹ تک پہنچیں گے۔ لیکن جب سے جداگانہ طریقہ انتخاب اور ہماری نمائندگی قانونی طور پر ختم ہوئی ہے، تب سے پارسیوں کی سیاست میں دلچسپی بھی قدرے کم ہو گئی ہے۔ لیکن دیگر پاکستانیوں کی طرح ہم بھی یہ تو سوچتے ہیں کہ ووٹ کس کو دیا جائے، کون سی پارٹی ملک کے لیے بہتر رہے گی۔‘‘

کاوسجی نے مزید کہا کہ پاکستانی پارسی برادری کے ارکان بطور ایک کمیونٹی کے کسی ایک پارٹی یا امیدوار کو متفقہ طور پر ووٹ نہیں دیتے بلکہ کوئی ووٹر اپنا ووٹ کس کو دے گا، اس کا فیصلہ وہ دیگر پاکستانیوں کی طرح ذاتی طور پر اور اپنے اپنے حلقے کے امیدواروں کو دیکھ کر کرتا ہے۔

’اقلیتوں کے لیے حالات سازگار نہیں‘

 

کراچی کی رہنے والی تحقیقی صحافی اور خاتون تجزیہ نگار زوفین ابراہیم کے کئی قریبی دوست پارسی ہیں اور ان کے مقامی پارسی کمیونٹی سے گہرے روابط بھی برسوں پرانے ہیں۔ زوفین ابراہیم نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان میں اقلیتوں کے لیے حالات بالکل سازگار نہیں ہیں۔ اگر ہوتے تو احمدی، پارسی، ہندو، سکھ اور عیسائی وغیرہ پاکستان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ نہ لے رہے ہوتے۔ پاکستان میں پارسیوں کی صورت حال مختلف ہے۔ ان کا نہ کسی سے کوئی جھگڑا ہے اور نہ کوئی مسئلہ۔ یہ تو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔‘‘

زوفین ابراہیم نے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے بتایا، ’’ایک بار میں ایک غریب بچے کی تعلیم کے لیے فنڈز جمع کر رہی تھی کہ فیس بک پر مجھے ایک پارسی ٹرسٹ کی طرف سے کہا گیا کہ وہ یہ فنڈنگ کر دے گا۔ تب مجھے کسی نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ جس بچے کی تعلیم کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے، اس کا مذہب کیا ہے؟ دوسری طرف ہم مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا چندہ بھی ہمارے ہی مذہب بلکہ مسلک کے لوگوں کو ملے۔‘‘

’پارسیوں کے ساتھ زیادتی‘

پاکستان میں ایک مذہی اقلیت کے طور پر پارسیوں کی نمائندگی کی صورت حال کو قانونی سطح پر کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر قاضی انور سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستانی پارسیوں کو ملکی اقلیتوں میں تو شامل کیا گیا ہے لیکن دیگر اقلیتوں کو پارلیمان میں نمائندگی حاصل ہے، ان کے لیے مخصوص سیٹیں موجود ہیں، جیسے احمدی، ہندو اور مسیحی۔ لیکن پارسی اقلیت کو اس حق سے محروم رکھا گیا ہے، جو پارسیوں کے شہری حقوق کی پامالی ہے۔ ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اقلیتوں کے لیے مختص خصوصی سیٹیں بھی بہت کم ہیں۔ پورے ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے تو ظاہر ہے کہ اقلیتوں کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔ اس لیے مذہبی اقلیتوں کا یہ دیرینہ مطالبہ بھی جائز ہے کہ ملکی پارلیمان میں ان کے لیے مختص سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، تاکہ قومی پارلیمان جیسے پلیٹ فارم پر ان کی مشکلات پر بہتر طور پر بحث کی جا سکے اور ان کے حل نکالے جا سکیں۔‘‘

قومی زندگی میں پارسیوں کی منفرد خدمات

پاکستان میں سرکردہ پارسی شہری تعلیم، کاروبار، دفاع، سیاست اور سفارت کاری سمیت عوامی زندگی کے ہر شعبے میں شروع سے ہی نمایاں خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔ کراچی میں ان کے قائم کیے ہوئے کئی تعلیمی ادارے کئی نسلوں سے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کر رہے ہیں۔ ان میں ماما پارسی اسکول، این ای ڈی یونیورسٹی اور پارسی ہائی اسکول نمایاں ہیں۔ کراچی کے پارسی میئر جمشید مہتا اس شہر کے پہلے منتخب میئر تھے، جو دو مرتبہ اس عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ انہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں ’کراچی کا معمار‘ بھی کہا جاتا ہے۔

پاکستانی پارسی سفارت کار گینیز بک میں

پاکستانی فوج کے کئی سول اور فوجی اعزازت پانے والے پارسی افسر مانک میجر جنرل کے عہدے تک پہنچے تھے۔ پاکستان میں انگریزی صحافت میں آردیشیر کاوسجی ایک لیجینڈ کی حیثیت رکھتے تھے۔ پاکستان میں فائیو سٹار لگژری ہوٹلوں کے سلسلے ’آواری‘ کے مالک بھی ایک پارسی ہیں، جن کا نام بیرام آواری ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ایک پہچان جمشید مارکر بھی تھے، جن کا گزشتہ ماہ جون میں پچانوے برس کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔

جمشید مارکر نے کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ کئی برسوں تک اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کے سفیر رہے تھے۔ جمشید مارکر کے بارے میں یہ بات بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کا نام گینیزبک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل ہے، اس لیے کہ وہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا کے کسی بھی دوسرے سفارت کار کے مقابلے میں سب سے زیادہ ممالک میں اپنے ملک کے سفیر رہے تھے۔