1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کراچی میں، شہر کی قسمت بدلنے کا وعدہ

4 جولائی 2018

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت کی انتخابی مہم کے سلسلے میں کراچی کا دو روزہ دورہ کیا۔ رات گئے لیاری پہنچنے کے باوجود مقامی افراد نے عمران خان کا پرتپاک استقبال کیا۔

https://p.dw.com/p/30qXQ
Pakistan Wahlkampagne in Karaschi
تصویر: DW/R. Saeed

نیوکراچی میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کپتان کے لیے اونٹ کا صدقہ بھی دیا۔ عمران خان نے ایک بار پھر کراچی کی قسمت بدلنے کا وعدہ کرتے ہوئے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کی درخواست کی۔

عمران خان منگل کی شام کراچی پہنچے اور ائیرپورٹ کے باہر میڈیا نمائندوں کو دیکھ کر عمران خان گاڑی سے اترے اور غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’شہباز شریف کا پیرس دیکھ کر آرہے ہیں جسے بارش نے وینس بنادیا ہے‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف کے بارے میں فیصلہ آنے والا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خان نے کہا، ’’شریف خاندان نے عوام کے دوسال ضائع کردیے مگر صرف تین سوالوں کا جواب نہیں دے سکے کہ فلیٹس کب خریدے؟ پیسے کہاں سےآئے اور پیسے پاکستان سے کیسے منتقل ہوئے؟‘‘ عمران خان کراچی کے حلقہ این اے 243 پہنچے اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’شہر قائد کی روشنیوں کو دوبارہ بحال کریں گے اور چوروں سے حساب لیں گے‘۔

لیاری میں تحریک انصاف کی پوزیشن مستحکم نظر آئیتصویر: DW/R. Saeed

عمران خان کا خطاب پر لوگوں کا ملا جلا ردعمل تھا۔ اسکول ٹیچر افشین علی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’عمران خان کا ماضی صاف ہے اور انہیں ایک موقع ملنا چاہیے۔‘‘ تاہم افشین کے شوہر، جو کہ خود بھی میڈیا سے وابستہ ہیں، کی رائے مختلف تھی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’یہ کرکٹ میچ نہیں ہے۔ میں خود شوکت خانم ہسپتال کے لیے قربانی کی کھالیں جمع کرتا تھا لیکن عمران خان نے اقتدار کےحصول کے لیے جن لوٹوں کا جمعہ بازار اکٹھا کیا ہے اس کے بعد عمران خان سے کسی بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔‘‘ تاہم ایک نجی ٹی وی چینلز کی نیوز اینکر کرن رضوی کہتی ہیں کہ لوگ پرانے چہروں سے مایوس ہوچکے ہیں اور عمران خان کی صورت میں انہیں بہتری کی امید دکھائی دیتی ہے۔ کراچی ہی کی ایک اور شہری فوزیہ رحمان کو بھی عمران خان سے ایسی ہی توقعات ہیں۔

عمران خان ضلع غربی کی پشتون آبادیوں کا دورہ کرنے کے بعد رات گئے لیاری پہنچے، جہاں اہل لیاری ان کے منتظر تھے۔ پیپلز پارٹی کے دوہزار تیرہ سے دو ہزاراٹھارہ تک رکن قومی اسمبلی رہنے والے شاہ جہان بلوچ سمیت بہت سے منحرف مقامی رہنماؤں کی حمایت کے باعث لیاری میں تحریک انصاف کی پوزیشن مستحکم نظر آئی۔ مقامی افراد کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لیاری میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں ’عمران خان کا استقبال پھولوں سے اور بلاول کا پتھروں سے‘ کیا گیا۔

دوسرے روز کراچی کی کاروباری شخصیت عقیل کریم ڈھیڈی کی جانب سے عمران خان کے حلقہ انتخاب میں ناشتے کا اہتمام کیا گیا جس میں کئی نمایاں کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔ یہاں میڈیا سے گفتگو میں عمران خان نے کہا، ’’اندھیری رات سے نکلنے کےلیے اللہ نے پاکستان کو زبردست موقع دے دیا ہے، فیصلہ ہوتے ہوئے نظرآ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت بنانے کے لیے ہمارے پاس کافی نشستیں ہوں گی۔‘‘

شہباز شریف کی انتخابی مہم شروع

عمران خان نے ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھے جانے والے ضلع وسطی کے مختلف حلقوں میں انتخابی دفاتر کا افتتاح کیا۔ ان علاقوں میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے متعدد وعدے کیے۔ ان کا کہنا تھا، ’’بینکاری کا نظام تبدیل کرنا ہوگا، غریب آدمی کو کوئی بینک قرضہ نہیں دیتا۔ ون ونڈو آپریشن کے ذریعے رکاوٹوں کو دور کریں گے۔ پچیس جولائی کو سب کو موقع ملے گا کہ تقدیر بدل سکیں۔ تقدیر بدلنے کا موقع بار بار نہیں آتا۔ کراچی گندگی، کوڑا کرکٹ کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ پولیس کا حال یہ ہے کہ امن کے لیے رینجرز کو لانا پڑتا ہے۔ یہاں سے لوگ نوکری کے لیے دبئی جاتے ہیں۔‘‘

دو روز تک عمران خان کے دورے کی مسلسل کوریج کرنے والے مقامی میڈیا کے ایک نوجوان رپورٹر خاور حسین کہتے ہیں کہ دو ہزار تیرہ میں ایم کیوایم مخالف ووٹ تحریک انصاف کو ملا تھا مگر اس بار ایسے ووٹ کے مصطفی کمال سمیت بہت سے دعوے دار ہیں۔ خاور حسین کے مطابق، ’’پیپلز پارٹی بھی نئی حلقہ بندیوں کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے جب کہ ایم ایم اے کی موجودگی بھی پی ٹی آئی کے لیے خطرہ ہے۔‘‘

جامعہ کراچی کی طالبہ یسریٰ مزمل کہتی ہیں کہ عمران خان کوضرور موقع ملنا چاہیے۔ یسریٰ کے مطابق، ’’مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کئی سالوں سے حکمرانی کر رہے ہیں۔ عمران خان ایک متحرک لیڈر ہیں ۔ نوجوانوں کی خواہش ہے کہ 2018 میں عمران خان وزیراعظم بنیں ۔‘‘ شمیل احمد کو تحریک انصاف کو کراچی سے کامیابی کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے شمیل کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو دو ہزار تیرہ میں آٹھ لاکھ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود خود کو شہر میں اے این پی کا متبادل ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہی جب کہ آٹھ لاکھ ووٹوں میں سے اکثریت مہاجر ووٹوں کی تھی۔

ورکنگ ویمن سعدیہ غوث کے مطابق عمران خان کی پشت پر جن اداروں کا ہاتھ ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی جماعت برسراقتدار آجائے گی۔ سعدیہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’عمران خان نے کراچی پر توجہ دینے میں بہت دیر کردی۔ پی ایس پی پر بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے لہذا مصطفی کمال کا پلڑا بھاری ہوسکتا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں