1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عظمی خان کیس: کیا اشرافیہ نے قوم کو ’مرغا بنایا‘ ہوا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
3 جون 2020

پاکستان کے فنکاروں، قلم کاروں اور سماجی رہنماوں نے اداکارہ و ماڈل عظمی خان کی طرف سے ملک ریاض کی بیٹیوں کے خلاف مقدمات واپس لینے پر مایوسی کا اظہار کیا اور اسے ’طاقتور کی فتح‘ قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3dBsS
Pakistan Lahore | Pressekonferenz | Uzma Khan
تصویر: picture-alliance/dpa/PPI

کچھ فنکاروں کا کہنا ہےکہ طاقتور اشرافیہ نے پوری قوم کو 'مرغا بنایا‘ ہے۔ واضح رہے کچھ دنوں پہلے معروف اداکارہ عظمی خان اور ان کی بہن کو آمنہ عثمان نامی خاتون نے مبینہ طور پر مسلح گارڈز کے ساتھ ہراساں کیا تھا اوران کے رہائش گاہ پر توڑ پھوڑ کی تھی۔ آمنہ کے ساتھ مبینہ طور پر معروف کاروباری شخصیت ملک ریاض کی دو بیٹیاں بھی تھیں، جن کے نام پشمینہ ملک اور امبر ملک بتائے گئے۔

اس واقعے کے بعد عظمی خان نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس لاہور میں اپنے وکلا کے ساتھ کی، جس میں انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ وہ مقدمے کی پیروی کریں گی اور اس سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ گزشتہ جمعے کو انہوں نے ایسی افواہوں کی بھی تردید کی تھی کہ وہ ایف آئی آر واپس لے رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے لاہور کی ایک مقامی عدالت نے ایف آئی آر میں نامزد تینوں خواتین کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کئے تھے۔ تاہم منگل کو عظمی خان کی طرف سے مقدمہ واپس لینے کی درخواست لاہور کے متعلقہ تھانے میں جمع کرائی گئی۔ اس کےعلاوہ متعلقہ عدالت میں بھی اس حوالے سے حلف نامے جمع کرائے گئے۔ واضح رہے کہ منگل سے قبل ہی عظمی خان کی قانونی ٹیم کی ایک رکن خدیجہ صدیقی نے ڈیل کی اطلاعات پر قانونی ٹیم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

’آئی ايس آئی کا نام لے کر دھمکی، رياستی اداروں اور نظام کے منہ پر طمانچہ‘

عظمی خان کی پریس کانفرنس کے خلاف رونما ہونے والے واقعے اور بعد کی پریس کانفرنس نے پاکستان میں ہلچل مچادی تھی اور کئی حلقوں میں یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ کوئی تو ہے جو 'ملک ریاض جیسے طاقت ور‘ آدمی کو چیلنج کر رہا ہے۔ لیکن منگل کو اس واقعے کے ڈراپ سین کے بعد ان حلقوں میں مایوسی ہے اور پاکستان کی فنکار کمیونٹی اسے طاقت ور کی فتح قرار دیتی ہے۔ معروف اداکار جمال شاہ کا کہنا ہے، ''ملک میں ایک طاقت ور اشرافیہ ہے، جس کا حصہ ملک ریاض بھی ہیں اور اس اشرافیہ نے قوم کو اسی طرح مرغا بنایا ہوا ہے، جیسے کہ پرانے زمانے میں اسکول میں ماسٹر صاحب بچوں کو مرغا بناتے تھے۔ میڈیا، سیاست دان اور اداروں سمیت کسی میں بھی جرات نہیں ہے کہ اس اشرافیہ کو چیلنج کرے۔ اس ڈیل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر آپ طاقتور ہیں، تو آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ایسی اشرافیہ سے لڑنے کے لئے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے انقلاب درکار ہے۔‘‘

انہوں نے اس مسئلے پر فنکاروں کی بڑی تعداد کی خاموشی کو بھی ہدف تنقید بنایا، ''اس مسئلے پر ایک طاقتور آدمی کی بیٹیوں نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا لیکن ہمارے ہاں فنکار اس لئے نہیں بولتے کیوں کہ وہ فنکار نہیں بلکہ انٹرٹینرز ہیں۔ فنکار بہت باشعور اور حساس ہوتا ہے، جو معاشرتی مسائل کا ادراک رکھتا ہے اور طاقت ور حلقوں کو چیلنج بھی کرتا ہے۔‘‘

معروف گلوکار اور برابری پارٹی پاکستان کے چیِئرمین جواد احمد جمال شاہ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ طاقتور اشرافیہ نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے، ''لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ عظمی خان کا کیس سماجی نہیں سیاسی ہے۔ یہ سیاسی نظام ایسا ہے جس میں اشخاص اور ادارے سب طاقتور کے لئے معاون ثابت ہوتے ہیں اور یہ ایسے ہی چلتا رہے گا جب تک عام آدمی سیاست میں حصہ لے کر غریب عوام کو پارلیمنٹ میں نہیں پہنچائے گا۔"

پاکستان میں پہلے بھی طاقت ور حلقوں کے خلاف کچھ مقدمات دائرے ہوئے لیکن بعد میں متاثرہ فریق نے صلح کر لی۔ معروف سماجی رہنما فرزانہ باری کا خیال ہے کہ عدالتوں کو ایسے موقع پر از خود نوٹس لینا چاہیے، ''ہمارے ہاں خواتین میں صنفی شعور نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ دباو میں آجاتی ہیں۔ لیکن عظمی خان کے کیس میں سیاست دانوں اور میڈیا نے ان کی مدد نہیں کی۔ صرف سول سوسائٹی ان کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ عدالتوں کو چاہیے کہ ایسے معاملات میں ڈیل کو منظور نہ کریں ورنہ طاقت ور ایسے ہی فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔‘‘