1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'عدالتی فیصلے میں سقم ہیں‘

19 دسمبر 2019

وزیر اعظم کی  معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ سابق آمر جنرل مشرف کو سنائی جانے والی سزائے موت کے عدالتی فیصلے میں 'کمزوریاں اور سقم‘ ہیں۔ اس فیصلے کے بعد عدلیہ اور فوج کے مابین کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3V4tU
Pakistan Ex-Präsident Pervez Musharraf
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستانی وزیر اعظم کی معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومت کی قانونی ٹیم کے مطابق آمر جنرل پرویز مشرف کی سزا کے عدالتی فیصلے میں 'کمزوریاں اور سقم‘ پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وکلاء نے بدھ کو رات گئے وزیر اعظم عمران خان کو اس عدالتی فیصلے پر بریفنگ دی۔

دبئی میں زیر علاج 76 سالہ مشرف نے اس عدالتی فیصلے کو سیاسی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔ پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے سنگین غداری کے ایک مقدمے میں منگل کے دن مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔

جمعرات کو جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی کور کمانڈرز کمیٹی کے ساتھ ساتھ وہ تمام حاضر سروس فوجی بھی مشرف کے جرم میں برابر کے شریک ہیں، جو اس وقت مشرف کے ساتھ تھے یا ان کی حفاظت پر مامور تھے۔

اس عدالتی فیصلے میں جسٹس وقار احمد سیٹھ نے لکھا کہ اگر مشرف مردہ حالت میں بھی ملیں، تو ان کی لاش کو ڈی چوک پر لا کر تین دن تک لٹکایا جائے۔ تاہم اس خصوصی عدالت کے دو دیگر ججوں نے اس بات سے اختلاف کیا۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مشرف کے ساتھیوں کی نشاندہی کرے اور ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے، جنہوں نے مشرف کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔

اس عدالتی فیصلے پر پاکستانی فوج کی طرف سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔ عدلیہ اور فوج کے مابین اس تازہ کشیدگی میں اٹارنی جنرل انور منصور نے فوج کے بیان کی حمایت کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقدمے میں مشرف کے خلاف کارروائی منصفانہ طور پر نہیں کی گئی۔

یہ تازہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب ملکی سپریم کورٹ نے حال ہی میں حکومت کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کو دی جانے والی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع پر اعتراضات کیے تھے۔

ع ب / م م / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید