1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’طعنے تشنے اور گالياں روزانہ کا معمول ہيں‘

12 نومبر 2018

يورپی ملک آسٹریا میں مہاجرین سے متعلق پالسیاں سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی ہیں جن کا مقصد ملک میں تارکین وطن کی آمد کو روکنا ہے۔ ايسے ميں وہاں مقيم تارکين وطن کو کيسے حالات کا سامنا ہے؟

https://p.dw.com/p/386g5
Österreich Flüchtlinge am Grenzübergang
تصویر: picture alliance/dpa/PIXSELL/V. Z. Rogulja

آسٹریا اس وقت یورپی یونین کی شمشاہی صدارت کے منصب پر فائز ہے جب کہ چانسلر سیباستیان کُرس سیاسی پناہ سے متعلق پالیسیاں سخت ترین بنا رہے ہیں۔ وہ یورپی سطح پر بھی پالیسیوں میں سختی کے خواہاں ہیں۔

جرمنی نے مہاجرت سے متعلق یو این او کے معاہدے کی حمایت کر دی

'مہاجرت پر عالمی معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ نا درست ہے‘

آسٹریا کے چانسلر سبیباستیان کُرس چاہتے ہیں کہ یورپی یونین کی سطح پر سخت ترین پالیسیاں بنائی جائیں، تاکہ غیرقانونی تارکین وطن کی حوصلہ شکنی ہو۔ مہاجرین سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق اس صورت حال میں آسٹریا میں موجود تارکین وطن اور سیاسی پناہ کے متلاشی افراد ایک بے یقینی کا شکار ہیں۔

زالسبرگ کا شہر جرمنی کی سرحد کے قریب آسٹریا کا ایک ایسا شہر ہے، جو دن کو ایک حسین نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ مگر یہاں کے لوگوں کے لیے کچھ مناظر نہایت نئے ہیں۔ ساجد خان اسی شہر کے مکین ہیں۔ انفومائیگرینٹ سے بات چیت میں ساجد خان نے کہا، ’’مجھے سالسبرگ بہت پسند ہے۔ یہ مجھے چاروں جانب پہاڑوں میں گھرے میرے آبائی شہر جلال آباد کی یاد دلاتا ہے۔ مگر اب مجھے یہ خوف لاحق ہے کہ ایک شہر جسے میں اپنا گھر سمجھتا ہوں، ایک بار پھر مجھ سے چھین لیا جائے گا۔‘‘

43 سالہ ساجد خان سن 2014ء میں افغانستان سے آسٹریا پہنچے۔ تب ہی سے وہ سیاسی پناہ کے حوالے سے آسٹریا کے سخت اور پیچیدہ عمل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اتنے برس گزر جانے کے باوجود ساجد خان کو آسٹریا میں ملازمت یا کام کی قانونی اجازت نہیں ہے۔ مگر اسے صرف یہی پریشانی لاحق نہیں۔ ’’آسٹریا کے لوگوں کو ہر اس چیز سے مسئلہ ہے جو آسٹرین نہیں ہے۔‘‘

مہاجرین کا معاملہ اور آسٹریا کے شہریوں کی رائے

انہوں نے انفومائیگرنٹ سے بات چیت میں دعویٰ کیا کہ آسٹریا میں روزانہ کی بنیاد پر ہر غیر ملکی شخص کو طعنوں اور دشنام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خان کی یہ پریشانی سمجھی جا سکتی ہے۔ آسٹریا میں گزشتہ برس ہونے والے انتخابات میں 58 فیصد عوام نے ان دو جماعتوں کو ووٹ دیا، جو مہاجرین کے سخت خلاف ہیں۔ آسٹریا میں سالانہ بنیادوں پر کرائے جانے والے ایک حالیہ سروے میں 55 فیصد عوام نے مہاجرین کے آسٹرین معاشرے میں انضمام پر تحفظات کا اظہار کیا۔

سن 2010ء میں ایسے آسٹرین شہری جو یہ سمجھتے تھے کہ تارکین وطن کا آسٹریا میں انضمام مشکل ہے ان کی تعداد قریب 30 فیصد تھی جو سن 2014 تک تک بڑھ کر 48 فیصد ہو گئی، تاہم پھر سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ سن 2015ء میں مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد کے یورپ کا رخ کرنے کے بعد یورپ بھر میں مہاجرین مخالف جذبات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

عاصم سلیم (انفومائیگرینٹ ڈاٹ نیٹ)، ع ت، ع س