طاہر داوڑ کی لاش اب تک نہ مل سکی
14 نومبر 2018پشاور پولیس کے ایس پی طاہر داوڑ کو مبینہ طور پر کچھ روز قبل اسلام آباد سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر طاہر داوڑ کی تصاویر لیک کی گئی تھیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ طاہر داوڑ کی تشدد شدہ لاش ہے۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے محسن داوڑ جو کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں کا کہنا تھا، ،’’ کل ان کی لاش کی تصاویر لیک ہوئی تو پولیس کو اطلاع آئی کہ آپ ان کی لاش لینے کے لیے طورخم آئیں لیکن جب پولیس وہاں پہنچی تو انہیں کوئی لاش نہیں ملی۔‘‘ محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ افغان حکام طاہر داوڑ کی لاش کی افغانستان میں موجودگی کی تردید کر رہے ہیں۔
اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی نیوز چینل کے صحافی اعزاز سید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’جس طرح صحافی سلیم شہزاد کو اسلام آباد سے اغوا کیا تھا، طاہر داوڑ کو بھی اسی طرح اسلام آباد سے اغوا کیا گیا۔ اس شہر میں سکیورٹی کافی اچھی ہے، کیمرے نصب ہیں لیکن پولیس اب تک طاہر داوڑ کے اغوا کاروں کا پتا نہیں چلا سکی۔‘‘ اعزاز کی رائے میں حکومت کو چاہیے کہ اس کیس کو ٹیسٹ کیس بنائے اور ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے جس کے رپورٹ منظر عام پر آئے۔
اس معاملے پر پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے اسے ایک حساس معاملہ قرار دیتے ہوئے کوئی بیان دینے سے گریز کیا۔ اس حوالے سے صحافی سید طلعت حسین نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی کا اس سفاکانہ قتل پر بات نہ کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ یہ حساس معاملہ ہے اور مزید شبہات کو جنم دیتا ہے۔‘‘
اعزاز کہتے ہیں کہ اس حوالے سے حکومت کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی ورنہ اس واقع کے پولیس سروس پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور خاص طور پر ان افسران پر جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر دہشت گردوں اور قانون شکن عناصر سے لڑتے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کی رکن گلالئی اسماعیل نے اس کیس سے متعلق اپنے فیس بک پیج پر لکھا،’’ ایس پی طاہر خان کے پر اسرار اغوا اور پھر ان کے مبینہ قتل پر میں انتہائی دکھی ہوں، مجھے انصاف ملنے کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد جیسے محفوظ شہر سے کیسے کوئی یوں اغوا کیا جا سکتا ہے؟‘‘
عصمت رضا شاہ جہان کا کہنا تھا،’’ جو چیف جسٹس کسی پوليس افسرکے تبادلے پر ازخود نوٹس لے کر عدالتی کارروائی شروع کر دیتے ہیں،وہ پختونخوا پولیس کےایک ایس پی کے اغوا اور پھر قتل پہ خاموشی کیونکر اختیار کیے ہوئے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رکن بشریٰ گوہر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ طاہر داوڑ پی ٹی ایم کی امن اور انصاف کے مطالبے کی حمایت کرتے تھے۔ ان کا تعلق وزیرستان سے تھا اور وہ موت، نقل مکانی اور تباہی سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ تو صرف اپنے خطے میں امن اور خوشحالی چاہتے تھے۔
’بندوق کے زور پر مسئلے حل نہیں ہوں گے‘